ابدی زندگی کے گہرے راز جو انسان کو مرنے نہیں دیتے

Posted by

جو دلوں میں رہتے ہیں وہ اگر دُنیا میں نہ بھی رہیں تب بھی وہ دلوں میں ہی رہتے ہیں کیونکہ وہ دلوں کے مالک مکان بن جاتے ہیں، پیسے اور دولت سے بنائے ہُوئے مکان اور دل سے میں بنائے ہُوئے مکان میں بڑا فرق ہوتا ہے کیونکہ پیسے اور دولت سے بنائے ہُوئے مکان بیچے اور خریدے جا سکتے ہیں مگر دل میں بنایا ہُوا گھر کو معیشت کے ترازو پر نہیں تولا جا سکتا۔

برائے فروخت نہیں ہے

دولت سے بنائے ہوئے مکان پر مرنے کے بعد کسی اور کا قبضہ ہو جاتا ہے مگر دل میں بنے ہُوئے گھر پر کوئی اور قبضہ نہیں کر سکتا کیونکہ دل میں گھر جہالت، شدت پسندی، نفرت، بد اخلاقی وغیرہ سے نہیں بنتے بلکہ محبت، قابلیت، اعتماد، مہارت اور اخلاق سے بنتے ہیں۔

انسان کا تعارف

جس طرح پھول کی خوشبو اُس کا تعارف ہوتی ہے اسی طرح انسان کا تعارف اُس کے کردار سے بنتا ہے اور یہ کردار انسانیت، محبت، برداشت، امن، سلامتی کے راستے پر چلنے سے ملتا ہے اور اس راستے پر چلنے والا ہر باکردار آپ کے کردار سے شناسائی حاصل کرتا ہے اور عیاری، مکاری اوراداکاری سے نفرت پھیلانے والا ہجوم بنتا ہے۔

حقیقی حُسن

چہرے کی خُوبصورتی اہل نظر کو متاثر کرتی ہے اور کردار کی خوبصورتی اہل علم کا حُسن ہے جو دلوں کوفتح کرلیتا ہے اور اہل علم اور اہل علم جب باکردار اور با عمل بنتے ہیں تو وہ دُنیا کےسب دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور کیا خوب کہا ہے کسی نے کے انسان کا کردار صندل کے درخت جیسا ہوتا ہے جو خود پر کلہاڑی کھا کر بھی کلہاڑی کو خوشبودار بنا دیتا ہے۔

سوچ اور کردار کا امتحان

کسی نے ایک فقیر سے پُوچھا ” انسان کی سوچ اور انسان کے کردار کے امتحان میں کیا فرق ہے؟”، فقیر نے جواب دیا ” اپنی نیکی کو چھپانا انسان کی سوچ کا امتحان ہے اور کسی کے عیب چھپانا انسان کے کردار کا امتحان ہوتا ہے”۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شیخ سعدی اور اُسکا بیٹا عبادت میں مشغول تھے دُعا کے بعد بیٹا باپ سے بولا ” بابا سب لوگ سو رہے ہیں اور ہم عبادت کر رہے ہیں”، سعدی نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور یہ کہہ کر سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ” اگر تُم نے دوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنی تھی تو بہتر تھا تُو بھی ان کیساتھ سویا رہتا”۔

کردار کی منزلیں

جو دُوسروں کے عیبوں پر نظر رکھتے ہیں وہ دل سے اُتر جاتے ہیں اور جو دل سے اُتر جائیں وہ زندہ رہنے کے باوجود مر جاتے ہیں اور جو دل میں گھر بنا لیں وہ مرنے کے بعد بھی مرتے نہیں اور انسان کے کردار کی 2 ہی منزلیں ہیں یا دل میں اُتر جانا یا دل سے اُتر جانا۔

کردار کا نتیجہ

جو دل سے اُتر جاتے ہیں پھر وہ کہا جاتے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور جو دل میں اُتر جائیں وہ جہاں بھی جائیں دل اُن کے ساتھ جاتا ہے، کُچھ لوگوں کے مرنے سے بہت سے لوگ مر جاتے ہیں اور کُچھ لوگوں کے مرنے سے بہت سے لوگ جینے لگتے ہیں اور یہ سب کردار کا نتیجہ ہوتا ہے۔

ابدی زندگی

کچھ لوگ خوشبو کی طرح ہوتے ہیں وہ رہیں یا نہ رہیں اُنکا کردار ہمیشہ مہکتا رہتا ہے، اُن کی مثال باقی رہتی ہے، اُن کا چراغ روشن رہتا ہے، اُن کی یاد زندہ رہتی ہے اور یہ سب انسان کی اپنی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ کیا بننا چاہتا ہے اور وہ کب مرنا چاہتا ۔ ہے (عزیر رشید)