پنجاب کے مقبول گلوکار اور کانگریس لیڈر شوبھدیپ سنگھ عرف سدھو موس والا کو اتوار کی شام شرپسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ سدھو کی موت سے ان کے مداحوں کو صدمہ پہنچا ہے۔ سدھو کی موت کو اتفاق کہیے یا تقدیر، بدقسمتی یا ستم ظریفی کہ بچپن سے جس فنکار کو وہ اپنا آئیڈیل مانتے تھے، جس کو سن کر سدھو میں گلوکاری کا ہنر پیدا ہوا، اسے کامیابی اور موت دونوں بالکل ان کی طرح ہی ملے۔
سدھو کو جاننے والے بتاتے ہیں کہ اس کا ذہن بچپن سے ہی پڑھائی کی بجائے موسیقی میں زیادہ لگتا تھا۔ بچپن میں سدھو اپنی مادری زبان پنجابی کو چھوڑ کر انگریزی ریپ اور ہپ ہاپ میوزک کے قریب آگیا اس دوران امریکی ریپر ٹوپک شکور کے گانوں نے سدھو کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑا۔ سدھو ٹوپک کے گانے سنتے اور ان کے معنی سمجھنے کی کوشش کرتے۔ آہستہ آہستہ سدھو نے ٹوپک کے انداز کو کاپی کرنا شروع کیا اور پنجابی میں اپنے گانے کمپوز کرنے لگا۔
ٹوپاک کا نام دُنیا کے بہترین ریپرز میں شمار ہوتا ہے اور ان کے گانوں میں سماجی مسائل کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے خاص طور پر ان کا گانا سو مینی ٹیرز (بہت زیادہ آنسو) بیحد مقبول ہوا لیکن سدھو کے اس گُرو کی موت بھی سدھو کی طرح ہی ہوئی اور ٹوپاک کے مداح آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں۔

ٹوپاک شکور اور سدھو موسی والا کی گلوکاری اور کامیابی کی زندگی جتنی ملتی تھی، دونوں کی موت بھی اتنی ہی دردناک تھی۔ 7 ستمبر 1996 کو ٹوپاک کو لاس اینجلس میں ایک نامعلوم حملہ آور نے کار میں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔ ٹوپاک کی عمر صرف 25 سال تھی۔ اس واقعے کے تقریبًا 25 سال بعد ایسا ہی ایک واقعہ پنجاب کے ضلع مانسا میں پیش آیا ہے۔ جہاں سدھو موسی والا اپنی گاڑی میں حملہ آوروں کا نشانہ بنے ۔
سدھو کی موت کے بعد ان کا گانا جو چند دن پہلے ہی یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا وائرل ہو رہا ہے اس گانے کو سننے کے بعد ایسا لگا جیسے سدھو کو اپنی قسمت کا پہلے سے ہی علم تھا۔ دراصل، گانے میں سدھو نے اپنی جوانی میں مرنے کا ذکر کیا ہے۔ گانے میں سدھو کہتے ہیں- ‘ایدہ اٹھوگا جوانی وچ جانا مٹھیے’ کا مطلب ہے ‘تم اپنی جوانی میں جاگ جاؤ گے۔’ سدھو کی یہ موسیقی سن کر آج ان کے مداحوں کی آنکھیں نم ہیں۔
سدھو کی موت کے بعد ان کا 295 گانا بھی سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہا ہے۔ مداح اس گانے کو ان کی موت کی تاریخ سے جوڑ رہے ہیں۔ دراصل، سدھو کا قتل پانچویں مہینے کی 29 تاریخ کو ہوا تھا۔ اگر ہم ان ہندسوں کو عددی ترتیب سے دیکھیں تو یہ نمبر 295 بنتا ہے جو سدھو کے ایک بڑے مشہور گانے کا ٹائٹل بھی ہے۔ فنکار احساسات کا ترجمان ہوتا ہے اور قاتل یہ بات نہیں جانتا کہ جو فنکار لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائے پھر اسے مارا نہیں جا سکتا جیسے سدھو کو گولیاں تو مار دی گئی لیکن سدھو موسے والا اپنے مداحوں کے دلوں میں ابھی بھی زندہ ہے۔
Feature Image Preview Credit: Thesports1234, CC BY-SA 4.0, and Bollywood Tadka Punjabi, CC BY 3.0, via Wikimedia Commons.