علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کا جغرافیہ پاکستان کے موسموں پر گہرا اثر رکھتا ہے اور اس خطے کا سہانا موسم مون سُون بھی اس خطے کے جغرافیے کی وجہ سے ہے جہاں جون، جولائی اور اگست میں بنگال کے ساحلوں سے سمندر کا پانی بخارات بن کر ہوا میں اُڑتا ہے اور یہ بخارات ہوا میں ایک خاص بُلندی پر جا کر ٹھنڈے ہونے کے بعد بادل بن جاتے ہیں اور چُونکہ ان مہینوں میں شدید گرمی پڑتی ہے چنانچہ پاک و ہند میں گرم ہونے والی ہوا اس خطے کے جنوب کے پہاڑوں کی طرف سفر شروع کر دیتی ہے چنانچہ یہ بادل راستے میں آنے والی جگہوں پر خوب بارش برساتے ہیں۔
مُون سون میں پاک و ہند میں گرم ہونے والی ہوا جس میں بخارات کا تناسب کئی گُنا بڑھا ہوتا ہے جب جنوب کے پہاڑوں کی طرف چلتی ہے تو پہاڑوں سے ٹکرا کر تیزی سے اوپر کی طرف جاتی ہے جہاں یہ ٹھنڈی ہونے کے بعد اچانک گہرے بادلوں میں بدل جاتی ہے اور ان بادلوں کے پانی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ مُون سون کے موسم میں جس کمرے میں اے سی چل رہا ہو وہاں سے بھی رات بھر میں 2 سے 3 بالٹیاں پانی کی نکل آتی ہیں۔
پاک و ہند کے پہاڑی علاقوں میں مون سون کے موسم میں جب گرم ہوا میں شامل بخارات فضا میں ایک خاص بُلندی تک پہنچتے ہیں تو ٹھندک کی وجہ سے کنڈینس ہوتے ہیں اور بادلوں کی شکل اختیار کرتے ہیں اور ان بادلوں میں اتنا زیادہ پانی ہوتی ہے کہ یہ حرکت نہیں کر پاتے اور ایک ہی جگہ پر اتنی شدت سے برستے ہیں کہ تھوڑی دیر میں ہی فلیش فلڈ کی صُورتحال پیدا کر دیتے ہیں اور یہی صُورتحال آج اسلام آباد میں اُس وقت پیدا ہوگئی جب گرم ہوا تیزی سے اوپر اُٹھی اور بادل بن گئی جس سے شدید تیز بارش ہوئی جسے کلاؤڈ برسٹ کرنا کہتے ہیں اور تھوڑی ہی دیر میں 250 ملی لیٹر بارش نے شہر میں سیلاب کی صُورتحال پیدا کردی۔
اسلام آباد شہر پاکستان میں جنوب کی طرف مارگلہ ہلز کے دامن میں واقع ہے اور مُون سُون میں یہاں اکثر بادل کا پھٹ جانا عام ہے لیکن 23 جولائی 2001 میں اسلام آباد اور راولپنڈی شہر میں پاکستان کی پچھلے 100 سال سے زیادہ کی تاریخ کا سب سے بڑا بادل برسٹ کیا اور صرف 10 گھنٹے میں اسلام آباد میں 650 ملی لیٹر اور رالپنڈی میں 335 ملی لیٹر بارش ریکارڈ کی گئی جس سے اس علاقے میں موجود نالہ لئی میں آج تک کی ریکارڈ کی جانے والی تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب پیدا ہُوا۔
جولائی 2001 میں ان جڑواں شہروں میں پیدا ہونے والے اس سیلاب نے شدید تباہی مچائی اور نہ صرف نشیبی علاقوں کو پانی میں ڈبو دیا بلکہ راستے میں آنے والی کئی عمارات کو بہا کر لے گیا، اس موقع پر پاکستان کے محکمہ موسمیات نے صرف 4 سے 5 گھنٹے پہلے اس شدید بارش اور سیلاب سے آگاہی دی تھی لیکن اس کے باوجود 61 انسانی جانوں کا نقصان ہُوا اور صرف اسلام آباد شہر میں 800 کے قریب گھر مسمار ہوگئے اور 1069 گھروں کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا۔
دُنیا کے بڑے ممالک میں خاص طور پر امریکہ میں اکثر بہت سے علاقوں میں طوفان وغیرہ پیدا ہوتے رہتے ہیں لیکن وہاں اُن کے پاس ایسا جدید نظام موجود ہے جس کی مدد سے وہ کئی دن پہلے شدید موسم اور پیشگی طوفان کی اطلاع اپنے شہریوں کو دے دیتے ہیں اور یہ اطلاع تقریباً سو فیصد درست ہوتی ہے لیکن پاکستان کا محکمہ موسمیات آج بھی موسم کا حال بتانے والے جدید سیٹلائیٹس اور سُپر کمپیوٹرز سے محروم ہے جس کی وجہ سے موسم کی درست صورتحال زیادہ لمبا عرصہ پہلے نہیں جانی جاتی اور جب موسم کا پتہ چلتا ہے تو وقت بہت کم رہ گیا ہوتا ہے۔
پہاڑی علاقوں میں پھٹنے ولابادل میدانی علاقوں کے میں بادل کے پھٹنے سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتا ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پیدا ہونے والا سیلاب میدانی علاقوں کو بھی زیر آب لے آتا ہے اور بہت سے لوگوں کو بے گھر کر دیتا ہے لیکن اگر مناسب وقت پر موسم کی نشاندہی کر دی جائے تو اس سے بہت سے انسانی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔