امام عالی مُقام کا قافلہ 8 ذلحج 60 ہجری اور عیسوی کلینڈر پر 10 ستمبر 680 کو مکہ سے کُوفہ کے لیے روانہ ہُوا جسے راستے میں حُر نے اپنے 1000 سپاہیوں سمیت ذوحسم کے مُقام پر اپنے گھیرے میں لے لیا اور امام کو کوفہ کا راستہ بدل کر کربلا کے میدان کی طرف لے گیا، امام کا قافلہ 2 محرم 61 ہجری اور عیسوی کلینڈر پر 3 اکتوبر 680 میں میدان کربلا پہنچا تو حُر نے ابن زیادہ کے حُکم پر آگے بڑھ کر امام کے قافلے کو وہیں روک دیا، امام نے پُوچھا یہ کونسی جگہ ہے تو امام کو بتایا گیا یہ کربلا ہے، امام نے فرمایا ” اچھا کرب و بلا کی یہی منزل ہے ہمیں اسی جگہ قتل کیا جائے گا ” امام اپنے گھوڑے سے اُترے اور فرمایا یہاں خیمے نصب کر دو۔
2 محرم 61 ہجری
ایک روایت میں ہے کہ امام نے سلیمان بن صرد خزاعی کو خط لکھا جو کوفہ کے اکابرین اور با اثر افراد میں ایک تھا اور جس نے امام کو خط لکھ کر کوفہ آنے کی دعوت دی تھی۔
امام نے خط میں لکھا، مفہوم ” اے سُلیمان تُم نے خط لکھ کر مُجھے کوفہ آنے کی دعوت دی تاکہ تُم لوگ میری بیعت کر سکو اور میں تُم لوگوں کے وعدوں پر اعتبار کرکے یہاں آیا، یہاں صورتحال یہ ہے کہ کوفہ کے تمام راستے بند ہیں اور یزید کی فوجیں راستہ روکے کھڑی ہیں اور میری نقل و حرکت پر پابندی ہے، میں تجھے لکھتا ہوں کہ میری مدد کر مگر میں جانتا ہُوں کے کوفہ والوں نے میرے باپ، بھائی اور چچا زاد بھائی کیساتھ کیا سلوک کیا، اب یہاں میرا کوئی مدد گار نہیں میں چاہتا ہُوں تم میری مدد کو یہاں آؤ”۔
یہ خط امام نے قیس عربی کے حوالے کیا تاکہ وہ اسے سلیمان تک پہنچائے مگر قیس عربی کو کوفہ داخل ہوتے ہی ابن زیاد کے جاسوسوں نے گرفتار کر لیا اور اُسے ابن زیادکے پاس لے گئے ، ابن زیاد کے پاس پہنچنے پر قیس نے خط پھاڑ دیا جس پر ابن زیاد نے پُوچھا یہ کس کا خط تھا جسے تُو نے پھاڑ دیا؟۔ قیس نے کہا یہ امام حُسین کا خط تھا اور اس لیے پھاڑا کے تُو نہ پڑھ سکے۔
ابن زیاد اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور بولا” تیری رہائی کی دو صورتیں ہیں ایک یا تو مُجھے بتا کے یہ خط تُو کسے دینے جارہا تھا یا منبر پر کھڑے ہوکر حُسین اور اُس کے بھائی کو بُرا بھلا کہہ”۔ قیس نے کہا ” پہلی شرط تو ممکن نہیں ” ابن زیادہ بولا ” پھر منبر پر کھڑے ہوجاؤ”۔
چنانچہ اگلے دن کوفہ کے لوگوں کو مسجد میں بُلایا گیا جہاں قیس نے منبر پر کھڑے ہوکر اللہ کی حمدوثنا اورحُسین کے نانا پر درودو سلام کے بعد لوگوں کو حُسین کی مدد کے لیے دعوت دی اور ابن زیادہ اور یزید کو خُوب بُرا بھلا کہا جس پر قیس کو گرفتار کر لیا گیا اور چھت سے دھکا دیکر شہید کر دیا گیا”۔امام عالی مُقام کو جب قیس کی شہادت کی خبر ملی تو اُنہیں بہت رنج ہُوا۔
3 مُحرم 61 ہجری
ابن زیاد نے عُمرو بن سعد کو "رے” کی حکومت کا لالچ دیکر امام کا محاصرہ کرنےاور اُن سے مقابلہ کرنے کا حُکم دیا، کوفے کے سمجھدار لوگوں نے عُمرو بن سعد کو اس کام سے روکا لیکن لالچ نے اُس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی چنانچہ وہ چار ہزار کا لشکر لیکر میدان کربلا میں داخل ہُوا بعض روایات میں ہے کہ وہ 2 محرم کو میدان کربلا میں داخل ہوُا اور بعض میں ہے کہ اُس دن 3 محرم تھا۔
عُمرو بن سعد نے کربلا پہنچ کر کثیر بن عبداللہ شعبی کو امام کے پاس بھیجا تاکہ وہ امام سے پُوچھے کو امام کس مقصد سے یہاں تشریف لائے ہیں، کثیر بن عبداللہ ایک بدمعاش تھا جسے امام کے ساتھیوں میں سے جناب ابو ثمامہ نے امام سے ملنے سے روک دیا چنانچہ وہ واپس آگیا۔
4، 5، 6 محرم 61 ہجری
دوسری بار عمرو بن سعد نے قرہ بن قیس حنظلی کو امام کے پاس بھیجا تاکہ وہ امام کی آمد کا مقصد دریافت کرسکے ، قرہ امام کے پاس گیا سلام کیا اور آمد کا مقصد پُوچھا، امام نے جواب دیا، مفہوم "تُمہارے شہر والوں نے خطوط لکھ کر مُجھے بیعت کے لیے بُلایا ہے اب اگر اُنہیں میرا آنا ناگوار ہے تو میں واپس چلا جاتا ہُوں”، قرہ امام کا جواب لیکر عُمرو بن سعد کے پاس واپس آیا اور امام کے جواب سے مطلع کیا جس پر عُمرو بن سعد بولا اُمید ہے اللہ مُجھے حُسین کے ساتھ جنگ سے بچا لے گا۔
پھر عُمرو بن سعد نے امام کے جواب کے متعلق ابن زیادہ کو خط لکھا اور امام کے جواب سے مطلع کیا کہ کوفہ والوں نے خط لکھ کر امام کو یہاں بیعت کے لیے بُلایا ہے اور اگر اب کوفہ والے اپنی بات سے منکر ہو گئے ہیں تو امام واپس چلے جائیں گے۔
ابن زیاد نے عُمرو بن سعد کا خط پڑھا تو بولا ” اب جب ہمارے پنجے میں پھنس گیا تو واپس جاناچاہتا ہے”۔ پھر ابن زیاد نے عُمرو کو خط لکھا اور کہا کہ امام سے یزید کی بیعت لو اور اگر اُنہوں نے بیعت کر لی تو پھر میں فیصلہ کروں گا کہ امام کے ساتھ کیا کرنا ہے”۔
عُمرو بن سعد کو جب ابن زیاد کا خط ملا تو وہ بولا "میں سمجھ گیا کہ ابن زیاد عافیت نہیں چاہتا” پھر عُمرو بن سعد نے ابن زیاد کا خط امام عالی مُقام کے پاس بھیجا جس پڑھ کر امام نے ابن زیاد کا خط چاک کردیا اور فرمایا، مفہوم” رب العزت کی قسم میں ظالم، جابر، بدکار کی بیعت کبھی نہیں کروں گا”۔
7 محرم 61 ہجری
ابن زیاد کو جب پتہ چلا کے امام نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے تو اُس نے عُمرو بن سعد کو لکھا کے "امام اور اُس کے ساتھیوں پر پانی بند کردو”۔
عمرو بن سعد نے ابن زیاد کا پیغام ملنے پر عمرو بن حجاج زبیدی کی قیادت میں 500 سوار دریائے فرات پر بھیج دیئے اور اُنہیں حکم دیا کے حُسین اور اُس کے ساتھیوں کو پانی کا ایک قطرہ بھی حاصل نہ کرنے دینا۔
8 محرم 61 ہجری
امام عالی مُقام نے پانی بند کیے جانے کے بعد عُمرو بن سعد کے پاس قاصد بھیجا اور اُس سے مُلاقات کرنے کو لکھا، عُمرو بن سعد اپنے چند ساتھیوں کیساتھ امام کی خدمت میں حاضر ہُوا اور امام جناب عباس اور جناب علی اکبر کی معیت میں عُمرو سے ملے اور فرمایا، مفہوم ” اے ابن سعد تُو جانتا ہے میں کون ہُوں؟”، عُمرو نے جواب دیا ” آپ جناب علی کرم اللہ وجہہ کے بیٹے اور مُحمد ﷺ کے نواسے ہیں”، اس جواب پر امام نے فرمایا، مفہوم ” جب تُو یہ سب جانتا ہے اور یہ بھی جانتا ہے کہ میں بے قصور ہُوں تو مُجھے اور میرے بچوں کو پانی کے لیے کیوں ترسا رہا ہے؟”۔
عُمرو بن سعد بولا ” ابا عبداللہ آپ جو کُچھ کہہ رہے ہیں سچ ہے مگر مُجھے خوف ہے کہ اگر میں آپ کیساتھ مل گیا تویزید مُجھے کوفہ سے نکال دے گا اور میری جائیداد ضبط کرلے گا”، امام نے فرمایا، مفہوم "میں تمہیں اپنے نانا سے جنت میں بہترین محل لیکر دُوں گا”، عُمرو سعد بولا میرے کوفہ میں کھیت ہیں، امام نے فرمایا، مفہوم ” تمہیں حجاز میں سرسبز کھیت اور باغات دے دئیے جائیں گے” عُمرو نے امام کی بات سُن کر سر کو جھکا لیا تو امام نے فرمایا” جاؤ اور خوب سوچ کر جواب دینا”۔
عُمرو بن سعد نے امام سے چند مُلاقاتوں کے بعد ابن زیاد کو خط لکھا اور امام کی شرط مصالحت کی اطلاع دی اور لکھا کے اللہ نے آگ کے شعلوں کو بُجھا دیا اور مسلمانوں کے شیرازہ کو بکھرنے سے بچا لیا اور اتفاق پیدا فرما دیا۔
یہ خط جب ابن زیاد کو ملا تو وہ بہت خُوش ہُوا اور بولا ” میں اس تجویز کو قبول کرتا ہُوں” یہ سُن کر شمر ذی الجوشن جو وہاں موجود تھا کھڑا ہُوا اور بولا کہ حُسین اس وقت آپ کے قبضے میں آچُکے ہیں اور اگر آپ نے انہیں واپس جانے دیا تو وہ واپس جاکر خُوب قوت اور طاقت حاصل کریں گے اور آپ کمزور ہوجائیں گے، بھر شمر بولا آپ اُنہیں واپس جانے مت دیں بلکہ اُنہیں حکم دیں کے وہ اپنے آپ کو اپنے ساتھیوں سمیت آپ کے حوالے کر دیں پھر آپ چاہے اُنہیں معاف کردیں یا سزا دیں اور مُجھے تو خبر ملی ہے کہ عُمرو بن سعد رات رات بھر حُسین کے پاس جاکر بیٹھا رہتا ہےاور باتیں کرتا رہتا ہے۔شمر کی بات سُن کر ابن زیاد نے اپنا ارادہ بدل لیا اور شمر سے کہا کہ تم نے مُجھے بہترین مشورہ دیا ہے۔
9 مُحرم 61 ہجری
ابن زیاد نے شمر ذلجوشن کو کئی ہزار سپاہیوں کے ساتھ میدان کربلا میں بھیجا اور شمر کے ہاتھ عُمرو بن سعد کو خط لکھا ” میں نے تمہیں اس لیے نہیں بھیجا تھا کے تم حُسین کو ڈھیل دو اور اُن کی سفارشیں میرے پاس بھیجو، اب فوراً حُسین اور اُن کے ساتھیوں سے بلا شرط ہتھیار ڈالنے کا کہو اور اُنہیں گرفتار کرکے میرے پاس بھیج دو اور اگر وہ انکار کریں تو اُنہیں قتل کرکے اُن کا مثلہ کر دو اور اُن کی لاشوں پر گھوڑے دوڑا دو کیونکہ وہ باغی ہیں اور جماعت میں تفرقہ ڈالنے والے ہیں، ہم تمہیں بیش قیمت انعامات دیں گے اور اگر یہ کام تُم نہ کر سکو تو لشکر کو شمر کے حوالے کردو اور خُود الگ ہو جاؤ”۔
عُمرو بن سعد یہ خط پڑھ کر شمر سے بولا ” خدا تمہیں غارت کرے تُو یہ میرے لیے کیا لیکر آیا، یقناً تم نے ہی ابن زیاد کو یہ مشورہ دیا ہوگا اور میری رائے پر عمل سے روک کر تم نے بات کو بگاڑ دیا، خُدا کی قسم حُسین کبھی یزید کی بیعت کو تیار نہ ہوں گے اُن کے سینے میں ایک خُوددار دل ہے”۔ شمر عُمرو کی بات سُن کر بولا ” ان باتوں کو جانے دو تم حُسین کے قافلے پر حملہ کرتے ہو یا لشکر کی کمان میرے سپُرد کرتے ہو”۔ ابن سعد لالچ کے ہاتھوں فنا ہو گیا اور بولا لشکر کی کمان تُمارے حوالے ہرگز نہیں کروں گا اور یہ مہم میں خُود ہی سر کروں گا تُم پیدل فوج کی کمان سنبھالو”۔
ایک روایت میں ہے عُمرو بن سعد نے 9 محرم کی صبح اور دُوسری میں ہے کہ 9 محرم کی شام کو طبل جنگ بجوایا اور امام کے قافلے پر حملہ کرنے کے لیے تیار ہوگیا، طبل جنگ کے شور کو سُن کر حضرت بی بی زینب امام کے خیمے کے قریب آئیں اور کہا کہ دُشمن کی فوج کی آوازیں بہت نزدیک آ رہی ہیں، امام نے فرمایا میں نے ابھی خواب میں نبیﷺ کو دیکھا ہے اُنہوں نے فرمایا ہے کہ تُم بہت جلد ہمارے پاس آنے والے ہو، یہ سُن کر بی بی زینب رو پڑیں، پھر جناب عباس نے آکر اطلاع دی کے دُشمن کی فوج نے حملہ کر دیا ہے، امام نے کہا "اچھا میں دیکھتا ہُوں” عباس بولے آپ رُکیے میں دیکھتا ہُوں پھر جناب عباس دُشمن کی فوج کے پاس گئے اور آنے کا مقصد پُوچھا تو جواب ملا کے ابن زیاد کا حُکم ہے کہ آپ اُس کی اطاعت کرو وگرنہ آپ پر ابھی حملہ کر دیا جائے گا، جناب عباس واپس امام عالی مُقام کے پاس تشریف لائے اور دُشمن کے ارادے کی خبر دی، امام نے فرمایا، مفہوم” ان سے ایک رات کی مہلت مانگو اور ان سے کہو کہ ہم رات اللہ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ ہمیں نمازاور دُعا سے کتنی محبت ہے”۔
امام کا پیغام جب جناب عباس نے عُمرو بن سعد کو دیا تو وہ بولا ” نہیں ہم تو آج ہی لڑیں گے اور تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو بھی لڑنے لیے تیار ہونا پڑے گا” عُمرو کی بات سُن کر قریب کھڑا ابو شعبان کندی یا عمرو بن حجاج نے اسے ڈانٹا اور بولا یہ کیا بے شرمی ہے تُم رسول اللہﷺ کے نواسے کو ایک رات کی مہلت نہیں دے سکتے، کیا نہیں دیکھتے کے وہ لاچار ہیں بے بس ہیں وہ تُم سے بھاگ نہیں سکتے اور تین دن سے پیاسے ہیں”۔ یہ سُن کر عُمرو بن سعد خاموش ہو گیا اور لشکر کو لیکر واپس چلا گیا۔
عُمرو بن سعد کے واپس جانے پر امام نے اپنے ساتھیوں کو اکھٹا کیا اور خطاب کیا اور خطاب میں فرمایا، مفہوم ” کل کا دن میرے اور دُشمنوں کے درمیان آخری فیصلے کا دن ہے اُنہیں صرف میری ضرورت ہے اس لیے میں بخوشی سب کو اجازت دیتا ہُوں، رات ہو چُکی ہے میرے اہل بیت کا ہاتھ پکڑو اور تاریکی سے فائدہ اُٹھاتے ہُوئے چلے جاؤ اور اپنی جانوں کو ہلاکت سے بچا لو۔ سب نے یک زبان ہوکر کہا ” کیا ہم اس لیے چلے جائیں کے آپ کے بعد زندہ رہیں ، خُدا ہمیں وہ دن نہ دیکھائے۔
10 مُحرم 61 حجری
10 مُحرم 61 ہجری بروز جمعہ امام نے صف بندی کے بعد دُشمن کی فوج سے اتمام حجت کے لیے آخری خطاب کیا جسکا کسی پر کوئی اثر نہ ہُوا سوائے حُر بن یزید ریاحی کے جو امام کے قافلے کو گھیر کر میدان کربلا تک لایا تھا، وہ اپنے گھوڑے پر آیا اور امام سے معافی مانگی اور بولا کہ وہ بلکل نہیں جانتا تھا کہ ابن زیاد امام کو قتل کرنے کے در پر آجائے گا، امام نے حُر کو معاف کردیا پھرحُر کا بھائی معصب بھی عُمرو کے لشکرکو چھوڑ کر امام کے پاس آیا اور معافی طلب کی، امام نے اُسے بھی معاف کر دیا، پھر حُر نے عمرو بن سعد کے لشکر کی طرف اپنا گھوڑا موڑا اور اُنہیں سمجھانے کے لیے تقریر کی مگر کسی پر کوئی اثر نہ ہُوا اور یزیدی پیادوں نے حُر پر تیر چلانے شروع کر دئیے جس پر جناب حُر واپس امام کے پاس آ گئے۔
تیروں کی بارش ہوچُکی جو جنگ کی ابتدا کا اعلان تھا اس کے بعد ایک کے مقابلے میں ایک آنا شروع ہُوا سب سے پہلے امام کی صف میں سے جناب عبداللہ بن عُمیر گئے داد شجاعت دی اور جام شہادت پیا، پھر حُر گئے داد شجاعت دیتے جاتے اور امام کی طرف مُڑ مُڑ کر کہتے جاتے اب تو آپ نے مُجھے معاف کر دیا، اب تو آپ نے مُجھے معاف کردیا، اور پھر جام شہادت پیا، پھر جناب مصعب گئے، پھر جناب علی گئے پھر جناب عروہ گئے اور شیروں کی طرح لڑتے ہُوئے جام شہادت پیا۔
ان چاروں کی شہادت کے بعد جناب حُسین علیہ السلام نے ایک دفعہ پھر یزید کے لشکر سے خطاب کیا اور فرمایا، مفہوم ” میں علی کا بیٹا ہوں اولاد ہاشم ہُوں، میرے لیے یہ اعجاز ہے اگر میں فخر کروں، میرے نانا رسول اللہ تمام مخلوق میں سب سے اکرم اور ہم مخلوق میں چراغ ہیں جو دُنیا میں روشن ہیں، میری ماں فاطمہ ہیں جو رسول اللہ ﷺ کی بیٹی ہیں اور میرے چچا جعفر ہیں جن کا لقب ذوالجناحین ہے، ہمارے گھر میں اللہ کی کتاب اُتری اور ہمارے درمیان وحی آتی تھی، اور خیر ذکر ہوتی تھی، ہم اللہ کی امانت ہیں اُس کی مخلوق میں اور یہی بات ہم بادشاہ وقت سے کہتے ہیں، ہمارے فرمانبردار تمام فرمانبرداروں میں سے بہتر ہیں اور ہمارے دُشمن قیامت کے دن نقصان میں رہیں گے۔
پھر امام نے فرمایا، مفہوم” اے عُمر بن سعد میں نے یا میرے رُفقا نے ابھی تک تُم پر حملہ نہیں کیا ، جو چار انصار شہید ہُوئے وہ تمہارے ہی ساتھی تھے جن کہ دل میں اللہ نے رحم ڈالا اور انصاف نے اُن کے دلوں کو اُبھارا جس پر وہ تمہارے مخالف ہُوئے، اور میں اب تک خاموش ہُوں اور اب پھر تین باتیں پیش کرتا ہُوں ، ایک مُجھے یزید تک پہنچا دو تاکہ میں اُس کے پاس جاکر اُس کے ساتھ بیعت کا فیصلہ کروں اگر میں حق پر ہُوا تو وہ میری بیعت کرے گا”۔ عمر سعد نے جواب میں اس بات انکار کر دیا اور بولا اگر آپ یزید کی بیعت کرتے ہیں تو پھر ہم فیصلہ کریں گے جو ہم چاہیں گے۔
امام نے دوسری بات پیش کی اور فرمایا ہمیں مدینہ واپس جانے دو، عمر بن سعد نے یہ بات بھی رد کر دی، جناب امام نے تیسری بات پیش کی اور فرمایا میرے بچوں کو پانی پلا دو، ظالم عُمر بن سعد نے یہ بات بھی نہ مانی تو امام اپنے خیمے کی طرف واپس آگئے۔
پھر جنگ شروع ہُوئی تاریخ جانتی ہے کہ ہاشمی جوانوں نے جہاں بھی حملہ کیا تختوں کے پُشتے لگا دئیے مگر ہزاروں کے لشکر میں گنتی کے چند پیاسے کب تک لڑتے پھر ایک ایک کر کے شہادتوں کا سلسلہ شروع ہُوا، مُسلم بن عوسجہ شہید ہُوئے پھر زُہیر بن قیس شہید ہُوئے پھر حبیب بن مظاہر شہید ہُوئے، پھر نافع بن حلال نے جام شہادت پیا اور شہادتوں کا سلسلہ چل نکلا۔
جناب عباس امام کے بچوں کو پیاسا دیکھ کر بیقرار ہُوئے اور پانی لینے گئے اور فرات کے کنارے دُشمن سے لڑتے لڑتے ایک ہاتھ میں مشکیزہ پکڑے جام شہادت نوش کیا۔
امام کے بڑے بیٹے جناب علی اکبر امام سے اجازت لیکر دُشمن سے لڑنے نکلے، آپ رسول اللہ ﷺ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے تین دن کی پیاس کے ساتھ لڑے جدھر حملہ کرتے دُشمن آگے لگ کر بھاگتا چنانچہ سب نے ملکر حملہ کیا اور جناب علی اکبر نےامام کی آنکھوں کے سامنے جام شہادت نوش کیا۔
پھر عون اور مُحمد شہید ہُوئے اورپھر ایک ایک کرتے امام کے تمام ساتھیوں نے وفا اور جانثاری کی ایک عجیب داستان رقم کی جسے سُننے والے آج تک سُن کر بے اختیار روتے ہیں، ان شہید ہونے والوںمیں امام کے سب سے چھوٹے فرزند معصوم علی اصغر بھی شامل ہیں جو اس قافلے کے سب سے کم سن شہید ہیں۔
جب امام کے تمام ساتھی شہید ہو چُکے اور اولاد و فرزند اور رفیقوں میں سے کوئی باقی نہ رہا تو شیر خُدا علی مرتضی علیہ السلام کے صاحب زادے جناب امام حُسین علیہ السلام میدان جنگ میں اُترے، تین دن کی پیاس اور اپنی آنکھوں کے سامنے تمام اولاد کو جام شہادت پیتے دیکھا ما سوائے امام زین العابدین کے جو بہت بیمار تھے ، تمام رُفقا کو جام شہادت پیتے دیکھا، علی اصغر کے حلق میں تیر ترازو دیکھا اور مطمئن دیکھا۔
تاریخ جانتی ہے کہ امام کیسے لڑے جدھر حملہ کرتے دُشمن پسپا ہوجاتا یزیدی لشکر میں ہلچل مچ جاتی مگر تنہا آخر کب تک۔۔۔ لڑتے لڑتے امام عالی مُقام کا سارا بدن شدید زخمی ہوچُکا تھا لشکر یزید اکھٹے ہوکر امام کے دائیں بائیں حملہ کر رہا تھا اس موقع پر حضرت زینب نے چلا کر کہا ” اے عمرو کیا ابو عبداللہ تیری آنکھوں کے سامنے قتل ہو جائیں گے؟ ، عُمرو بن سعد کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ اُس کی داڑھی پر گرنے لگے جس پر اُس نے مُنہ دوسری طرف کر لیا۔
پھر شمر بن ذی الجوشن نے تیر اندازوں کو حُکم دیا کے تیر چلائیں اور اُنہوں نے تیروں کی بارش کر دی تیروں کی بوچھاڑ کے بعد امام انتہائی زخمی حالت میں گھوڑےسے نیچے اُترے شمر آگے بڑھا اور امام عالی مُقام کے سینے پر چڑھ گیا، امام نے پُوچھا تُو کون ہے تو بولا میرا نام شمر ذی الجوشن ہے آپ نے فرمایا سینہ کھول اُس نے سینہ کھولا تو اُس پر کوڑھ کا نشان تھا، امام نے فرمایا میں نے آج رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا اُنہوں نے فرمایا کے حُسین آج ظہر کی نماز تم ہمارے ساتھ پڑھو گے اور اُنہوں نے مُجھے میرے قاتل کی نشانیوں سے آگاہ کیا اور وہ نشانیاں تُم میں موجود ہیں بیشک تُو میرا قاتل ہے۔
پھر امام نے پُوچھا اے شمر آج کیا دن ہے، بولا آج جمعہ ہے، پھر امام نے پُوچھا آج کیا تاریخ ہے بولا آج یوم عاشور ہے ، امام نے پُوچھا مساجد میں کیا ہو رہا ہوگا، بولا نماز کی تیاریاں ہو رہی ہوں گی اور خطیب خطبہ پڑھ رہے ہوں گے، امام نے پُوچھا اے شمر تُو جانتا ہے خطبہ کیا چیز ہے؟، بولا خطبہ خُدا اور اُس کے رسول کی تعریف ہے، آپ نے فرمایا شمر حیف ہے کہ مساجد میں خطیب تو میرے نانا کی تعریف کر رہے ہیں اور تو اُن کے نواسے کو قتل کر رہا ہے اور جس حلق پر وہ بوسہ دیتے تھے اُس پر تلوار پھیرنا چاہتا ہے میں دیکھ رہا ہُوں حضرت زکریا علیہ السلام میرے دائیں طرف اور حضرت یحییٰ بائیں طرف موجود ہیں اے شمر میرے سینے سے ہٹ جا کہ میں وقت آخر دو سجدے کر سکوں۔
شمر یہ کلمات سُن کر سینے سے پیچھے ہٹا، امام نے خاک مقتل سے تیمم کیا اور نماز میں مصروف ہو گئے جب امام سجدہ میں گئے تو شمر سے صبر نہ ہُوا اور فوراً آپ کو شہید کر دیا۔ انا للہ و انا علیہ راجعون۔
نوٹ : اس آرٹیکل میں امام عالی مُقام کے دُنیائے کربلا میں آخری 9 دنوں کے چیدہ چیدہ واقعات کو شامل کیا گیا تھا، اور تفصیل بیان نہیں کی گئی تاکہ جو لوگ تاریخ سے واقفیت نہیں رکھتے وہ جنت کے سردار کے دُنیا میں آخری 9 دن سے واقف ہو سکیں، اللہ کے نبی ﷺنے فرمایا تھا ” حسن اور حُسین جنت کے باغوں کے دو پھول ہیں، جس نے ان سے محبت کی اُس نے مُجھ سے مُحبت کی اور جس نے ان بغض رکھا اُس نے مُجھ سے بغض رکھا” صلو علیہ و آلہ۔