امیر ہو یا غریب سب کو یکساں عزت دینی چاہیے ایک بچوں کی کہانی

Posted by

نوٹ: بچے کہانیوں سے بہت کُچھ سیکھتے ہیں اور یہ کہانی بچوں کو رات کو سُنانے کے لیے ہے تاکہ وہ سیکھ سکیں کہ غریب ہو یا امیر سب کی یکساں عزت دینی چاہیے وگرنہ نقصان بھی ہو سکتا ہے۔

ایک شہر جس کا نام جگن پور تھا میں ایک سوداگر جو بہت خوشحال تھا رہتا تھا۔ سوداگر بہت عقلمند اور ذہین تھا اور بادشاہ کو اس کی خوبیوں کا علم تھا اس لیے اس نے اسے ملک کا منتظم اعلی بنایا ہوا تھا۔ اس کی عقل اور ذہانت کے سبب وہاں کی رعایا بادشاہ سے خوش اور مطمئن تھی۔ جبکہ بادشاہ کو بھی سوداگر خوش رکھتا تھا۔ سوداگر ایک ایسا شخص تھا جس سے ہر ایک خوش تھا۔

سوداگر کی ایک ہی جوان بیٹی تھی جس کی شادی پر اس نے نہ صرف بادشاہ بلکہ شہر کے امرا اور فاضل لوگوں کے ساتھ محل میں کام کرنے والے سب عملہ کو بھی مدعو کر رکھا تھا۔

دعوت والے دن شاہی محل کا خاکروب امرا اور شرفا کے لیے مخصوص نشستوں پر جا بیٹھا۔ دعوت کی انتظامیہ نے یہ بات سوداگر کو بتائی تو وہ بہت غصہ ہوا اور اسے دعوت سے زبردستی نکال دیا۔ خاکروب اس بےعزتی کو برداشت نہ کر سکا مگر وہ سوداگر کی حیثیت سے واقف تھا اس لیے بے بس تھا لیکن دل میں بدلہ لینے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔

آخر ایک دن ایک ترکیب اس کی سمجھ میں آئی ۔ صبح کے وقت جب وہ بادشاہ کے کمرے کی صفائی کر رہا تھا اور بادشاہ نیم خوابیدہ بستر پر لیٹا ہوا تھا تو وہ بڑبڑانے لگا سوداگر حکومت پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ بادشاہ اٹھ بیٹھا اور غصے میں خاکروب سے پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ خاکروب بولا کہ وہ تمام رات جوا کھلتا رہا ہے اور پتہ نہیں نیند پوری نہ ہونے کی وجہ سے کیا بک گیا ہے۔

پھر خاکروب بادشاہ کے پاؤں پڑ گیا اور معافی مانگنے لگا۔ بادشاہ نے اسے معاف تو کر دیا لیکن سوداگر کے خلاف ایک گرہ اس کے دل میں پڑ گئی۔ بادشاہ نے سوداگر سے تمام اختیارات واپس لے لیے اور محل کا دروازہ اس کے لیے بند کر دیا۔

جب سوداگر صبح محل آیا تو پہریداروں نے اسے اندر جانے سے روک دیا۔ وہ پریشانی کے عالم میں ابھی وہاں کھڑا تھا کہ خاکروب آ گیا۔ اس نے پہریداروں سے کہا کہ یہ بادشاہ کا بڑا معتمد ہے۔ یہ لوگوں کو گرفتار کروا سکتا ہے یا ان کو دربار سے باہر پھنکوا سکتاہے جیسا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی پر مجھے بے عزت کرکے باہر پھنکوا دیا تھا۔ لہذا ہوشیار رہو کہیں یہ تمہارے ساتھ بھی میرے جیسا سلوک نہ کرے۔

سوداگر سمجھ گیا کہ یہ سب خاکروب کی شرارت ہے۔ وہ بہت رنجیدہ ہوا اور گھر واپس آ گیا۔ گھر آکر اس نے خاکروب کو دعوت پر بلایا۔ اسے بہت سے تحفےدئیے اور کہا کہ اس روز والے واقعہ میں آپکو شرفا کے لیے مخصوص نشستوں پر نہیں بیٹھنا چاہیے تھا اور با امر مجبوری آپکو دعوت سے نکالنا پڑا ۔ آپ مجھے معاف کر دیں۔

خاکروب پہلے ہی تحفوں کی وجہ سے پہت خوش تھا اس نے سوداگر کو معاف کر دیا اور سوداگر کو یقین دلایا کہ وہ اس کا سابقہ عہدہ بحال گروا دے گا۔ اگلی صبح جب وہ بادشاہ کے کمرے کی صفائی کرنے لگا اور بادشاہ نیم خوابیدہ تھا تو اس نے بڑبڑانا شروع کر دیا کہ ہمارا بادشاہ کس قدر احمق ہے کہ طہارت خانہ میں بیٹھ کر پھل کھاتا ہے۔

بادشاہ غصے سے اٹھ بیٹھا اور بولا کہ وہ کب طہارت خانہ میں پھل کھاتا ہے۔ خاکروب بادشاہ کے پاؤں میں گر پڑا اور کہا کہ تمام رات جوا کھیلنے کی وجہ سے سو نہیں سکا اور پتہ نہیں نیند میں کیا اول فُول بک گیا اسے معاف کر دیا جاۓ

بادشاہ نے سوچا کہ اس نے کبھی طہارت خانہ میں پھل نہیں کھاۓ۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یقیناً اس نے سوداگر کے متعلق جو باتیں کی وہ بھی جھوٹ ہیں۔ اس نے سوداگر کو بلایا اور اس سے بد معاملگی پر معذرت کی اور بہت سا انعام و اکرام دے کر اسے اس کے عہدہ پر بحال کر دیا۔