مرزا عاصم بیگ میری توقع سے بھی زیادہ اچھے مالک مکان ثابت ہوئے تھے ۔ میں نے کمرہ گزشتہ ماہ ان سے اس وقت کرایہ پر لیا تھا جب میری اس شہر میں ہوئی تھی ۔ میں ایک سول انجنئیر ہوں اور اس شہر کے ترقیاتی ادارہ میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر فرائض سر انجام دے رہا ہوں ۔ مرزا صاحب نے مجھ سے صرف ایک ماہ کا کرایہ ایڈوانس لیا اور کمرے کا کرایہ بھی بہت ہی مناسب رکھا۔
اسی پر بس نہیں بلکہ اس کرائے میں بجلی، پانی وغیرہ کا بل بھی شامل ہے۔ ابھی مجھے اس کمرے میں رہائش اختیار کئےایک ہفتہ ہی ہوا تھا کہ ایک شام مرزا صاحب نے مجھے یہ خوش کن پیشکش کی کہ میں بازار کی بجائے ان کے گھر کا کھانا کھایا کروں۔ میں تو پہلے ہی بازار کے کھانوں سے تنگ آیا تھا اس لئے میں نے ان کی یہ پیشکش بغیر کسی حیل و حجت کے قبول کر لی۔
میں دفتر سے آتا تو مجھے کمرہ بلکل صاف ستھرا ملتا، ہر چیز قرینے سے رکھی ہوتی تھی۔گرما گرم تازہ کھانا ملتا جو کہ نہایت لذیز ہوتا۔ میں نے کھانے اور کمرے کی صفائ و ستھرائ کی تعریف کی تو مرزا صاحب نے بتایا کہ یہ سب ان کی بیٹی نادیہ کرتی ہے۔ مرزا عاصم جب بھی ملتے اپنی بیٹی کے سگھڑ ہونے کے خوب گن گاتے۔میں نادیہ کی شخصیت سے غائبانہ طور پر ہی متاثر ہونے لگا۔
مجھے کھانا کا ناشتہ اکثر وہی دیتی تھی مگر پردے میں رہ کر۔ کمرے کے اندرونی دروازے پر ہلکی سی دستک دیتی، میں دروازہ کھولتا تو وہ دروازے کی آوٹ سے ہی کھانے کی ٹرے مجھے پکڑا دیتی۔میری اس سے کبھی کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔
ایک دن میں اپنے دفتر میں تھا کہ میرے موبائل پر “ اسلام علیکم “ کا پیغام آیا ۔ وعلیکم اسلام ۔۔مگر آپ کون ؟ میں نے جوابی میسج کیا ۔ جواب آیا “ نادیہ مرزا” آپ کے مالک مکان کی بیٹی ۔۔ اس مختصر پیغام سے شروع ہونے والا سلسلہ پہلے تعلقات میں بدلا، پھر دوستی میں اور آخر کار ہم دونوں ایک دوسرے کی محبت میں مبتلا ہو گئے۔
دن کا زیادہ تر حصہ اور پوری رات رومانوی پیغامات کرتے اور پڑھتے گزرنے لگی۔عید آئی تو نادیہ نے مجھے ایک شرٹ گفٹ کی۔اس نے یہ شرٹ خاموشی سے میرے کمرے میں بیڈ پر رکھ دی تھی۔میں نے اگلے دن جوابی گفٹ کے طور پر چوڑیاں اور کچھ اور جیولری رکھ دی تھی۔جو اس نے قبول کرکے شکریہ کا پیغام بھی بھیج دیا تھا۔
یہ سلسلہ کئ ماہ ایسے ہی چلتا رہا مگر ہم نے کبھی فون پر بات نہیں کی اور نہ ہی کبھی ملے۔ بس واٹس اپ پر پیغامات کے زریعے ہی رابطہ تھا۔ وہ کسی چیز کی فرمائش کرتی تو میں لا کر کمرے میں رکھ جاتا تھا اور وہ اٹھا کر لے جاتی تھی۔ میں اس سے کوئ چیز کھانے کی فرمائش کرتا تو اگلے ہی دن وہ چیز کھانے کا حصہ ہوتی ۔
ایک دن میں معمول کے مطابق اپنے دفتر میں کام کر رہا تھا تو اچانک مرزا عاصم میرے کمرے میں داخل ہوئے ۔ وہ بڑے غصے میں نظر آ رہے تھے ۔ کسی سلام و دعا کے بغیر ہی وہ مجھ پر برس پڑے ۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے ان کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔ میرے استفسار کے جواب میں انہوں نے ایک موبائل فون میری میز پر پٹخا اور چلا کر بولے” یہ میری بیٹی نادیہ کا فون ہے” یہ سنتے ہی میرے پاؤں تلے سے زمین کھسک گئ۔
میری اور نادیہ کی محبت کا بھانڈہ پھوٹ چکا تھا۔ہمارے درمیان ہونے والی تمام گفتگو پکڑی جا چکی تھی۔مرزا صاحب اونچی آواز میں پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہے جا رہے تھے۔میں نے اٹھ کر دفتر کا دروازہ بند کیا اور مرزا صاحب کے سامنے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ دئیے۔میں نے ان کے سامنے اپنی غلطی تسلیم کی اور اپنے آپ کو ان کے سامنے ہر سزا کے لئے پیش کردیا جس پر وہ خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگے۔
کچھ دیر بعد بولے” اب دو ہی راستے ہیں ، ایک یہ کہ میں تمہارے دفتر کے تمام ساتھیوں کے سامنے سارا معاملہ رکھ کر اپنی اور تمہاری عزت کا جنازہ نکال دوں ۔ اور دوسرا راستہ ؟ میں نے بے صبری سے پوچھا۔دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تم عزت کے ساتھ نادیہ کو اپنا لو۔
ہوں ۔۔۔میں نے کہا کہ مجھے نادیہ سے عزت سے شادی کرنا منظور ہے مگر مجھے اس کے لئے کچھ وقت دیں تاکہ میں اپنے والدین سے بات کر سکوں ۔ مرزا صاحب نے کہا کہ وہ مجھے کوئ وقت نہیں دیں گے نکاح آج شام ہی ہوگا۔مرتا کیا نہ کرتا۔۔نماز مغرب کے بعد دفتر کے ساتھیوں اور اہل محلہ کی موجودگی میں میرا نکاح نادیہ سے پڑھا دیا گیا۔
نکاح نامے پر دستخط کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ نکاح نامے پر دلہن کے دستخط والی جگہ پر انگوٹھا لگا ہوا تھامگر میں نے کوئی خاص دھیان نہ دیا اور قبول ہے قبول ہے کی منزل سے گُزر کر نادیہ کو بیاہ کر کمرے میں لے آیا اور رسمی دُعا سلام کے بعد اُس سے پُوچھا کے اُس نے نکاح نامے پر انگوٹھا کیوں لگایا اور دستخط کیوں نہیں کیے؟۔
نادیہ نے جواب دیا کے اُس کے پیدا ہوتے ہی اُس کی ماں گُزر گئی تھی جس وجہ سے وہ پڑھ لکھ نہیں سکی، میں حیرت مین ڈُوب گیا اور اُس سے پُوچھا کے موبائل پر میسج کیسے ٹائپ کرتی تھی، جس پر نادیہ نے جواب دیا کہ اُس کے پاس تو کوئی موبائل نہیں ہے۔
کمرے سے باہر صحن میں مرزا عاصم بیگ صاحب کے قہقتوں کی آوازیں آ رہی تھیں وہ ضرورت سے بہت زیادہ خوش لگ رہے تھے اور ادھر میرا دماغ اندھیروں میں ڈوبتا جارہا تھا، ڈوبتا جارہا تھا، ڈوبتا جارہا تھا۔
(تنویر بیتاب)