تیز رفتاری سڑک پر انسان کی دُشمن ہے اور عام طور پر ہر سڑک کی ایک حد رفتار متعین کی جاتی ہے جیسے ہماری موٹر وے پر حد رفتار 120 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے لیکن جرمنی دُنیا کا ایک ایسا مُلک ہے جہاں موٹرویز پر حد رفتار کی کوئی پابندی نہیں ہے اور اب تک جرمنی کی پبلک موٹروے پر 432 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلائی جا چُکی ہے۔
یورو ڈُپلیکس ٹرین کی حد رفتار 574 کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے اور دُنیا کا تیز ترین جیٹ جہاز لاک ہیڈ 3380 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پرواز کر سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کونسی حد رفتار ہے جس پر انسانی جسم سفر کر سکتا ہے اور جس کے آگے فنا ہے۔

تاریخ کے مُطابق انسان نے آج تک سب سے زیادہ تیز سفر 1969 میں کیا جب امریکن خلاباز اپالو 10 مشن جو کے چاند کے گرد چکر لگا کر واپس لوٹ رہا تھا اور واپسی پر خلابازوں کے کیپسولز نے 39897 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر واپسی کا سفر کیا اور بحفاظت زمین پر پہنچ گئے، یہ ریکارڈ آج تک نہیں ٹُوٹا لیکن اگلے سال یعنی 2021 میں اورین سپیس کرافٹ خلابازو کے ساتھ خلا میں جانے کے لیے تیار ہے اور یہ سپیس کرافٹ 32 کلومیٹر کی رفتار سے سفر کرے گا اور اس سپیس کرافٹ میں اپالو 10 مشن کے سپیڈ ریکارڈ کو توڑنے کی پُوری صلاحیت موجود ہے۔

ماہرین کے نزدیک انسانی جسم کی حد رفتار کو تعین کرنا آسان کام نہیں اور اس میں بہت سی چیزوں کو مد نظر رکھا جاتا ہے خاص طور پر اس بات کو دیکھنا ضروری ہے کہ جسم کیسے سفر کر رہا ہے اگر وہ ایک سپیس کرافٹ میں 32 ہزار کلومیٹر کی رفتار سے آرام سے سفر کر رہا ہے تو یہ صُورتحال اُس وقت بدل جائے گی جب کوئی خلاباز راکٹ کی کھڑکی سے سر باہر نکالے گا اور سر پر ڈائینامک پریشر بڑھے گا۔
خلائی ماہرین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم اگر کسی ایسی سپیس کرافٹ میں سفر کرے جو ہر طرح کی سپیڈ میں ڈائینامک پریشر وغیرہ کو برداشت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو تو یہ کسی بھی رفتار سے سفر کرسکتا ہے۔
آئن سٹائن کی تھیوری کے مُطابق کوئی چیز بھی روشنی کی رفتار جو کہ 1 ارب 8 کروڑ کلومیٹر فی گھنٹہ ہے سے زیادہ تیز رفتاری سے سفر نہیں کر سکتی اور اگر کسی بھی مادے کو لائٹ کی سپیڈ پر سفر کروایا جائے تو وہ مادہ خود روشنی یعنی لائٹ میں بدل جاتا ہے لیکن انسان آج تک کوئی ایسی مشین دریافت نہیں کرسکا جو اسے روشنی کی رفتار سے سفر کروا سکے۔
یہاں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رب کائنات نے معراج کروایا تو جس سواری پر آپ ﷺ عرش پر تشریف لیکر گئے وہ سواری روشنی کی رفتار سے کروڑوں گُنا زیادہ تیز تھی اور رحمت العالمین اُس سواری پر بحفاظت تشریف لیکر گئے اور واپس آئے اور یہ سب کیسے ممکن ہُوا اس بات کو سمجھنے کے لیے سائنس کا علم جو ابھی روشنی کی رفتار کو نہیں چُھو سکا بہت محدود ہے۔