زندگی اللہ کا ایک ایسا تحفہ ہے جو دُنیا میں پیدا ہونے والے انسانوں کیساتھ ساتھ ہر ذی روح کو ایک مقررہ وقت تک دیا جاتا ہے اور مقررہ وقت پر دل چاہتا ہو یا نہ چاہتا ہو جان جان آفریں کے سپرد کرنی پڑتی ہے کیونکہ یہ امانت ہے جسے واپس تو ایک دن کرنا ہی ہے۔
دُنیا میں کون کب پیدا ہوگا دُنیا میں کتنا قیام کرے گا اور اسے کب واپس جانا ہے اسکا فیصلہ خالق کائنات کے سوا اور کوئی نہیں کرتا لیکن خالق کائنات نے انسان کو علم بخشا ہے اور علم انسان کو نشانیاں پڑھنے اور سمجھنے کی بصیرت دیتا ہے اس لیے جہاں یہ بات سچ ہے کہ موت کے صحیح وقت کا علم سوائے رب العزت کے اور کسی کو نہیں وہاں یہ بات بھی حقیقت ہے کہ جب وقت قریب آجاتا ہےتو علم والوں کو نشانیاں دیکھ کر پتہ چل جاتا ہے۔
اس آرٹیکل میں ہم علم والوں کی بتائی ہُوئی اُن نشانیوں کا ذکر کریں گے جن سے پتہ چلتا ہے کہ اب دُنیا سے جانے کا وقت بہت قریب آ چُکا ہے تاکہ اگر یہ نشانیاں ہماری ذات میں ظاہر ہوں تو ہم فوراً تیاری پکڑ لیں اور اگر یہ نشانیاں ہمارے محبت کرنے والوں میں ظاہر ہوں تو ہم اُن کے لیے مشکل کے اس وقت میں آسانیاں پیدا کرنے والے بن جائیں۔
وقت قریب آگیا ہے
عام طور پر بڑوں میں جسم کے اعضا ٹھیک کام کرنا بند کر دیتے ہیں اور یہ سلسلہ بچوں اور نوجوانوں میں بھی ایسے ہی ہے مگر بچوں اور نوجوانوں میں اس بات کی قیاس آرائی کرنا آسان نہیں ہوتا اور وہ عام طور پر آخری وقت تک اپنے پُورے ہوش و حواس میں ہوتے ہیں اور ایسے سوالات کر رہے ہوتے ہیں جنکا جواب انتہائی مشکل ہوتا ہے اور ایسے وقت میں ایمان انسان کی بہت مدد کرتا ہے اور اس بات کو تسلیم کرنے میں آسانی ہوتی ہے کہ اللہ کی چاہت کے آگے ہماری مرضی کُچھ نہیں کرتی۔
1 سے 3 ماہ پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں
جسم فانی ہے اور فنا کی طرف عام طور پر آہستہ آہستہ لوٹتا ہے اور فنا سے تقریباً 30 سے 90 دن پہلے وزن تیزی سے گرنا شروع ہوتا ہے اور توانائی کا بحران پیدا ہوتا ہے چنانچہ نیند اور غنودگی بہت زیادہ آنی شروع ہوتی ہے اور کھانا اور پینا بہت کم ہوجاتا ہے اور ایسے موقع پر محبت کرنے والے کھانے پر زور دیتے ہیں تو مریض کا کھانے کو دل نہیں کرتا اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ من پسند اور زُد ہضم کھانا کھلایا جائے۔
ایک نشانی اسکی یہ ہے کہ انسان عام طور پراس وقت میں انسان اکیلا رہنا پسند کرتا ہے اور زندگی کے کاموں میں دل لگنا ختم ہوجاتا ہے اور وہ کام یا چیزیں جن سے اُسے راحت ملتی تھی اُن کاموں سے جی اُچاٹ ہوجاتا ہے اور کلام بھی بہت کم ہوجاتا ہے ماسوائے بچوں کے۔
2 ہفتے پہلے
یہ وقت مشکل وقت ہوتا ہے اور اس وقت میں تھکاؤٹ بہت زیادہ شدید محسوس ہوتی ہے اور مریض بستر پر ہی لیٹا رہتا ہے اور اُسکے جاگنے اور سونے کے اوقات بدل جاتے ہیں۔
دیگر نشانیوں میں بھوک اور پیاس نہ ہونے کے برابر رہ جاتی ہے اور فطری حاجات جیسے پاخانہ وغیرہ کی حاجت بھی بہت کم محسوس ہوتی ہے، جسم میں درد کی شکایت بڑھتی ہے اور بلڈ پریشر، سانس اور دل کی دھڑکنیں تبدیل ہوکر گرنے لگتی ہیں۔
جسم کا درجہ حرارت کبھی بڑھتا ہے اور کبھی بہت کم ہوجاتا ہے، ٹھنڈا پسینہ آتا ہے اور جلد پیلی ہونی شروع ہوجاتی ہے جسکی ایک وجہ خون کی جسم میں ترسیل کا خراب ہونا ہے۔
سانس بند ہونے کی شکایت بڑھتی ہے اور دماغ کنفیوز ہوتا ہے اور غشی پیدا ہوسکتی ہے اور یہ حالت مریض کے اہل خانہ کے لیے بہت زیادہ پریشان کُن ثابت ہوتی ہے، ایسے موقع پرسانس کو آکسیجن وغیرہ دیکر ٹھیک کیا جاسکتا ہےاور درد کی ادویات درد میں کمی کا باعث بنتی ہیں مگر مریض کے لیے یہ ادویات مُنہ کے ذریعے کھانا تکلیف دہ ہو سکتا ہے اس لیے سمجھدار ڈاکٹر حضرات ایسے موقع پر ڈرپس وغیرہ کا استعمال کرواتے ہیں۔
نظر کا فریب اور ویژن
مریض کو نظر کا فریب پیدا ہوتا ہے اور اُسے وہ محبت کرنے والے جو دُنیا سے رُخصت ہو چُکے ہیں نظر آنے شروع ہوتے ہیں وہ اُن سے باتیں کرتا ہے اور باتیں کر کے اچھا محسوس کرتا ہے اس لیے اگر آپ کسی ایسے فرد کے قریب ہیں تو ہرگز اُسے مت بتائیں کے اُس کے قریب جو اُسے نظر آ رہا ہے نہیں ہے یا اُسے نظر کا فریب ہو رہا ہے وگرنہ عین ممکن ہے کہ مریض آپ سے اُلجھے اور اچھا محسوس نہ کرے۔
چند گھنٹے پہلے
درد سے کراہٹ، آہیں بھرنا، کھانا پینہ مکمل ترک کردینا، پیشاب اور پاخانہ کی کوئی حاجت محسوس نہ کرنا، آنکھوں کا پتھرا جانا، آنکھ میں آنسو بہنا، نبض کا انتہائی مدہم ہوجانا کے محسوس ہی نہ ہو، جسم کا درجہ حرارت گر جانا، جلد کی رنگت اور ہاتھوں اور پاؤں کا نیلا پڑنا اور سانسوں کا اُکھڑنا۔
بوقت آخر
روح کی جسم سے جُدائی کو بعض لوگ بہت تکلیف دہ سمجھتے ہیں لیکن مشاہدے کا علم اور میڈیکل سائنس کی رائے اس بارے میں بہت مختلف ہے، میرے ذاتی مشاہدے میں بوقت آخر میں نے مریض کو اوپر دی گئی تمام تکلیفوں سے اچانک راحت میں جاتے دیکھا ہے۔
میڈیکل سائنس کی ایک ریسرچ کے مُطابق بوقت آخر جسم میں Serotonin کیمیکل کی مقدار بہت تیزی سے بڑھتی ہے اور میڈیکل سائنس کے مُطابق جسم میں اس کیمیکل کی مقدار کے بڑھنے سے راحت اور خوشی اور سکون پیدا ہوتا ہے۔
میڈیکل سائنس کے مُطابق بوقت آخر Serotonin کے علاوہ جسم میں Endorphins کیمیکل کی مقدار بھی بڑھتی ہےاور یہ کیمکل Stress اور درد کو کم کردیتا ہے۔
مشاہدے کا علم آپ کو دیکھائے گا کہ جسم سے روح جب رُخصت ہوتی ہے تو ایسے لگتا ہے کہ مریض پرسکون سو گیا ہے اور کوئی شک نہیں کہ تکلیف جب ختم ہوتی ہے تو انسان گہری نیند سو جاتا ہے۔
ایسے وقت کیا کرنا چاہیے
جذباتی اور خود پر قابو نہ رکھنے والے افراد مریض سے دُور چلے جائیں کیونکہ اُن کے رونے دھونے سے مریض کو تکلیف ہوگی، مریض کو نرم ہاتھوں سے مساج کریں خاص طور پر سر کے بالوں میں بہت شفقت اور مُحبت سے اُنگلیاں پھیریں، مریض کے قریب بلکل اونچی آواز سے مت بولیں اور جس قدر ممکن ہو اُسے سکون فراہم کریں اور اگر اُس کی کوئی وراثت ہے تو ایسے وقت میں اخلاق کا تقاضہ ہے کہ ہرگز ہرگز اُس سے اُس کی دولت وغیرہ اور وراثت کی تقسیم وغیرہ کے متعلق مت پُوچھیں۔
ایسے موقع پر مریض کیساتھ ہرگز زبردستی مت کریں، عام طور لوگ کلمہ پڑھانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں ایساہرگز ہرگز مت کریں اگر وہ مسلمان ہے تو اپنی زندگی میں اللہ کی واحدانیت کا اقرار اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کا اقرار کئی دفعہ کر چُکا ہوگا اور اس تکلیف کے وقت میں عین ممکن ہے کہ وہ کلمہ نہ پڑھ پائے اس لیے آہستہ آواز میں اُس کے قریب کلمے کا ورد کریں تاکہ وہ سُن سکے اور اگر ہمت میسر ہو تو پڑھ لے۔
ایسے موقع پر مریض کے اہل خانہ بے بس اور لاچار ہوتے ہیں اور اُن کے اختیار میں نہیں ہوتا کے جانے والوں کو روک سکیں اس لیے یاد رکھیں جب انسان بے بس اور لاچار ہوجاتا ہے تب دُعا کام آتی ہے اس لیے خیر کی دُعا کریں اور کوئی شک نہیں کہ ہمارا رب بڑا ہی رحمن بڑا ہی رحیم بڑا ہی غفور ہے اور سُن رہا ہے اور دیکھ رہا ہے۔