ایک سروے کی رپورٹ کے مطابق دُنیا کے تقریباً تمام والدین کو اس بات پر یقین ہے کہ وہ اپنے بچوں کی بہترین تربیت کر رہے ہیں، درحقیقت یہ بات کہنا اتنا آسان نہیں ہے کیونکہ اکثر اوقات بڑے اپنے غُصے اور جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے اور بچوں کو ضرورت اور اُن کی خطا سے زیادہ سزا دے دیتے ہیں جو بچوں کی نفسیات پر بہت بُرا اثر ڈالتی ہے اور اُن کے اندر خوف اور دقیانوسی احساسات کو پیدا کرتی ہے۔
یہاں اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی اپنے بچوں کو مارنا نہیں چاہتا مگر بچوں کو سزا دینا کبھی کبھار بہت ضروری ہوجاتا ہے، اس آرٹیکل میں ماہرین کے مطابق بچوں کو سزا دینے کے طریقے ذکر کیے جائیں گے تاکہ ہمیں پتہ چل سکے کہ سزا دینے میں زیادتی تو نہیں ہو گئی۔
1۔ اگر کا ارادہ بُرا نہ ہوتو سزا نہیں دینی چاہیے
بچے عام طور پر کسی کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتے ہوتے وہ بس نئی چیزوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور سیکھ رہے ہوتے ہیں ایسے موقع پر اُنہیں ڈانٹنا یا روکنا نہیں چاہیے اور اُن کو سپورٹ کرنا چاہیے اور اگر وہ کُچھ خراب کر دیں تو پیار سے اُنہیں بتانا چاہیے کہ ٹھیک کیسے کرنا ہے۔
اگر حادثاتی طور پر بچوں سے کوئی نقصان ہو جائے اور ایسے موقع پر اُنہیں سزا دی جائے تو یہ اُن کے اندر خوف پیدا کرے گا اور وہ مزید سیکھتے ہوئے ڈریں گے، ایسی صورتحال میں عام طور پر بچے بڑوں کی موجودگی میں جب کوئی انہیں گائیڈ کر رہا ہو ٹھیک رہتے ہیں لیکن بعد میں خود سے فیصلہ نہیں کرپاتے۔
2۔ تجویز دینے اور حُکم دینے میں فرق ہوتا ہے
اکثر اوقات والدین اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ بچوں کی پرورش کے لیے جو سختی اُن پر کی جاتی تھی وہ بلکل ٹھیک تھی لہذا وہ بچوں کو ہر بات سے منع کرنے کے لیے حُکم دیتے ہیں یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ حکم دینے اور تجویز دینے میں فرق ہے جیسے بچے کو بتانا ویڈیو گیم کھیلنا اُس کے لیے نقصان دہ ہے ایک تجویز ہے، اور اگر اُس سے کہا جائے کہ وہ ویڈیو گیم نہیں کھیلے گا تو یہ ایک حکم ہے جو سزا کے زمرے میں آتا ہے۔
اگر بچہ جذباتی نہیں ہے تو تجویز نہ ماننے پر اُسے سزا دی جاسکتی ہے لیکن اگر بچہ حساس ہے تو حُکم یا سزا اُسے پریشان کر سکتی ہے اور اُس کی شخصیت پر اثر انداز ہو سکتی ہے وہ سمجھ سکتا ہے کہ والدین کے علاوہ بھی ہر بڑے کا حُکم ماننا اُس کے لیے ضروری ہے تاکہ کہیں اُسے سزا نہ ملے۔
3۔ سزا جذباتی ہو کر نہیں دینی چاہیے
بچہ جب بات نہ مانے تو کُچھ والدین بہت زیادہ غُصے میں آجاتے ہیں اور اپنے غُصے پر قابو نہیں رکھ پاتے حالانکہ وہ اپنے بچے سے بہت پیار کرتے ہیں، ماہرین کا خیال ہے کہ جب والدین زیادہ غُصہ اور جذباتی انداز میں بچوں کو سزا دیتے ہیں یا سمجھاتے ہیں تو ایسے بچے بڑے ہوکر اُن لوگوں کے ماتحت بن جاتے ہیں جن کا سوشل سٹیٹس اُن سے بہتر ہوتا ہے۔
4. پبلک میں سزا دینا
بچوں کو لوگوں کے سامنے ہرگز سزا نہیں دینی چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے اُن کے اندر شرمندگی اور غُصہ جنم لیتا ہے، نفسیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جن بچوں کو سرعام سزا ملتی ہے وہ بڑے ہو کر اپنے بچوں کے ساتھ بھی ایسا ہی رویا اختیار کرتے ہیں اور قوت فیصلہ سے مرحوم ہوجاتے ہیں۔
5. سزا کی دھمکی دی ہے تو سزا بھی دیں
اگر آپ نے بچے کو کسی بات پر وارننک دی ہے کہ ایسا کرنے پر سزا ملے گی تو سزا ضرور دیں کیوں کہ ماہرین کے مطابق صرف سزا کی دھمکی سزا نہ دینے سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ بچے سمجھ لیتے ہیں کہ والدین صرف بول رہے ہیں اور اُن کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے البتہ اگر بچہ فوراً سُدھر جائے تو سزا ملتوی کی جاسکتی ہے مگر ایسی صورت میں بچے کو سمجھانا ضروری ہے کہ اُس کا طریقہ کار نارمل نہیں ہے۔
6. اگر پتہ نہ ہو کس کی خطا ہے تو سب کو سزا دیں
اگر آپ ایک سے زیادہ بچوں پر نگران ہیں اور آپ کو صحیح سے اندازہ نہیں ہے کہ کس بچے کی غلطی ہے تو کسی ایک کو سزا مت دیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے موقع پر سب بچوں کو سزا دیں، کسی ایک کو سزا دینے کے نیتیجے میں وہ بچہ احساس محرومی اور نفرت کا شکار ہو سکتا ہے۔
7۔ سزا صرف حالیہ غلطی پر دیں
بچوں کو سزا دیتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کے یہ سزا حالیہ غلطی پر دی جارہی ہے اگر آپ بچے کو کسی پُرانی غلطی پر سزا دیں گے تو بچہ مضبوط کردار بنانے میں ناکام ہوسکتا ہے۔
8۔ ہر غلطی پر ایک ہی سزا مت دیں
ہر غلطی پر ایک ہی سزا دینا ماہرین کے مطابق غلط ہے چھوٹی غلطی پر چھوٹی سزا اور بڑی غلطی پر سنجیدہ سزا دینا ماہرین کے مطابق ضروری ہے۔
9. بچوں کو گالی مت دیں
ماہرین کے مطابق بچوں کو گالی دینا یا غلط لفظ سے مخاطب کرنا اُن کی شخصیت پر اثر انداز ہوتا ہے مثال کے طور پر اگر اُن سے کھانے کی پلیٹ یا کوئی اور چیز گر جائے تو انہیں یہ مت کہیں کے وہ انتہائی نکمے ہیں یا سسُت ہیں بلکے اُن سے کہیں کے اب وہ خود صضائی کریں۔