بھیک مانگنے کی اجازت صرف امیر لوگوں کی مشینوں کو ہے

Posted by

نسیم اور اُس کا شوہر اشرف سر جوڑے بیٹھے تھے ۔ انہیں کُچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے کھانے پینے کا بندوبست کیسے کریں ۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے لگائے گئے لاک ڈاؤن کو آج چھبیس دن ہو چُکے تھے ۔ نسیم موٹر سائیکل رکشا چلاتا تھا جو گزشتہ چھبیس روز سے گھر کھڑا تھا ۔

نسیم کسی کے گھر کام کاج پر جاتی تھی مگر کرونا وائرس کے خوف سے مالکن نے اُسے کام پر آنے سے منع کر دیا تھا۔ کُچھ دن تو اُن کے پاس جمع پونجی سے گھر میں روٹی پانی چلتا رہا تھا ۔ جمع پونجی ختم ہونے ہر نسیم دوبار اپنی مالکن سے اُدھار پیسے لا چُکی تھی ۔

نسیم محلے کے دکاندار سے اُدھار سودا لاتا رہا تھا مگر اب اُس نے بھی مزید ادھار سودا دینے سے انکار کر دیا تھا ۔ گھر میں راشن ختم ہو چُکا تھا ۔

اب اُن میاں بیوی کو کُچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کھانے پینے کا بندوبست کیسے کریں ؟ “ تُم اپنے کسی یار بیلی سے ہی کُچھ اُدھار مانگ لاؤ” نسیم نے اپنے شوہر کو مشورہ دیا “ سب کے کام تو بند پڑے ہیں ۔ میں کس سے اُدھار مانگوں ؟ “ اشرف نے مایوسی بھرا جواب دیا ۔ “

یار ! یہ حکومت کن کو پیسے دے رہی ہے ؟ “ اشرف نے بیوی سے پوچھا “ وڈے لوگ خود ہی کھا پی جاتے ہیں ۔ غریبوں کا تو بس نام ہی ہوتا ہے جی “ نسیم نے جواب دیا ۔

اب تو بس ایک ہی حل نظر آتا ہے ۔اشرف بولا وہ کیا؟ نسیم نے بے چینی سے پوچھا ۔۔ میں بھی باہر جاکر بھیک مانگ کر لاؤں ۔ اشرف بولا ۔ اشرف کی یہ بات سُن کر نسیم پریشان ہو گئ۔ لوگ کیا کہیں گے جی؟ نسیم بولی لوگ جو کہتے ہیں انہیں کہنے دو ۔ میں کل سے بھیک مانگنے کے لئے جاؤں گا اشرف نے دو ٹوک جواب دیا۔

اگلے دن اشرف شہر کے ایک معروف چوک میں جا پہنچا اور ٹریفک سگنل پر رکنے والی گاڑیوں سے بھیک لینے کی کوشش کرنے لگا۔ ابھی اُسے بھیک مانگتے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ ایک لحیم و شہیم شخص نے اُسے گردن سے آپکڑا اور اُسے چوک کے ایک کنارے پر لے جا کر بولا “ تُم کون ہو اور تمہیں یہاں بھیک مانگنے کی اجازت کس نے دی ؟۔

اشرف نے اُسے اپنے گھر کے حالات بتائے اور پوچھا “ بھائ ! بھیک مانگنے کے لئے اجازت کیسی ؟ “ اُس شخص نے بتایا کہ اُس نے یہ چوک بھیک مانگنے کے لئے بھاری رقم کے عوض ٹھیکے پر لیا ہوا ہے ۔ یہاں اُس کی اجازت کے بغیر کوئ بھیک نہیں مانگ سکتا “ اشرف نے چوک میں بھیک مانگنے والے دیگر گداگروں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا “ وہ سب بھی بھیک مانگ رہے ہیں جی “ اُس شخص نے بتایا کہ وہ سب اُس کے اپنے بندے ہیں جنہیں گداگری کی زبان میں “ مشینیں “ کہا جاتا ہے ۔ اُس نے اشرف کو وہاں سے فورا چلا جانے کا کہا ۔ ہاں البتہ اُس پر ترس کھاتے ہوئے اُسے پچاس روپے کا ایک نوٹ دے دیا تھا ۔

اشرف کے لئے یہ سب بہت حیران کُن تھا وہ وہاں سے ہٹ آیا اور اب وہ ایک معروف مارٹ کے باہر آ پہنچا تھا ۔ اُس نے وہاں آنے جانے والوں سے بھیک مانگنا شروع کر دی ۔ کُچھ ہی دیر بعد ایک خاتون جو اچھی خاصی بنی سنوری ہوئی تھی وہاں آن پہنچی اور اشرف کو نہ صرف بھیک مانگنے سے منع کر دیا بلکہ مانگی گئی بھیک کی رقم بھی اُس سے چھین لی۔اُس عورت نے بھی اُس مارٹ کے باہر بھیک مانگنے کا ٹھیکہ لے رکھا تھا۔ اُس کی “ مشینوں” کے سوا کوئی وہاں بھیک نہ مانگ سکتا تھا۔

اشرف بھیک مانگنے میں ناکام ہو کر واپس گھر جاتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ ضرورت مند تو اب بھیک مانگ کر بھی اپنی ضرورت پُوری نہیں کر سکتا۔ اب تو گداگری کا حق بھی امیروں نے لے رکھا ہے اور بھیک صرف اُن کی مشینیں مانگ سکتی ہیں۔

نوٹ: معاشرے کی اس تلخ حقیقت پر مبنی یہ کہانی تنویر بیتاب صاحب کے قلم نے لکھی ہے۔