بیوی کو خوش کرنے کے طریقوں میں سے ایک طریقہ اُسے کھانے کے لئے گھر سے باہر لے جانا بھی ہوتا ہے۔ اُس دن ویک اینڈ نائٹ تھی ۔ ویک اینڈ نائٹ پر بیوی کا موڈ ٹھیک ہونا انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ میں نے دفتر سے گھر آتے ہی اپنی بیوی کو رات کا کھانا گھر سے باہر جا کرکھانے کی تجویز دی تو وہ خوشی سے کھل اُٹھی تھی ۔
ہم دونوں تیار ہو کر اپنے کم سن بیٹے کے ساتھ خوش خوش شہر کے ایک معروف ریسٹونٹ پہنچے تھے ۔ کھانے کا آرڈر دینے کے بعد ہم خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ اچانک ایک ویٹر اپنے ہاتھ میں ایک پلٹ پکڑے ہماری میز کے پاس آیا ۔ پلیٹ میں ایک لیڈیز کالا چشمہ رکھا تھا۔
اُس نے وہ پلیٹ میرے سامنے رکھی تو میں پہچان گیا وہ کالا چشمہ میری دفتر کی ساتھی اور میری دوست شاہدہ کا تھا جسے میں آج دوپہر اسی ریسٹورنٹ میں لنچ کروانے کے لئے آیا تھا ۔ بیرا مجھ سے مخاطب ہوا “ سر ! آپ کا چشمہ “ میں نے اس چشمے کا مالک ہونے سے انکار کیا تو وہ بولا “ جی سر ! مجھے بھی پتہ ہے یہ چشمہ آپ کا نہیں ہے ۔ یہ اُن میڈم کا ہے جو آج دوپہر آپ کے ساتھ لنچ کے لئے آئی تھیں “ میں نے اُسے کہا “ بھائی ! تمہیں غلط فہمی ہوئ ہے۔ میں آج آپ دوپہر اس ریسٹورنٹ میں آیا ہی نہیں تھا “ مگر وہ اپنی ٹپ لینے کے چکر میں مجھے پھنسائے چلا جا رہا تھا ۔
یعنی وہ اپنی بوٹی کے لئے میرا بکرا ذبح کروانے پر تلا تھا ۔ میری بیوی یہ ساری گفتگو بڑی دلچسپی سے سُن رہی تھی ۔ وہ ریسٹورنٹ کے ایک کونے میں لگی میز کی طرف اپنی انگلی کی طرف اشارہ کرتا ہوا بولا “ سر! آپ دونوں وہاں بیٹھے تھے” میں نے اُسے ڈپٹ کر وہاں سے چلے جانے کو کہا تو میری بیوی نے اُسے روک لیا اور اُس سے کہا “ یہ اب کبھی نہیں مانے گے “ میری بیوی نے اپنے بیگ سے سو روپے کا نوٹ نکال کر اُسے دیا اور اُس سے وہ چشمہ لے لیا ۔
مجھے پتہ تھا کہ گھر واپس جا کر اس معاملے کی مزید تفتیش ہوگی ۔ اس لئے میری پوری کوشش تھی کہ یہ معاملہ وہیں پر ختم ہو ۔ اُس ویٹر کے جاتے ہی ایک دوسرا ویٹر کھانا لے کر آگیا تھا ۔ میں ہاتھ دھونے کے لئے واش روم کی طرف جاتے ہوئے بھی اسی معاملے پر غور کر رہا تھا۔ ہاتھ دھو کر اپنی میز پر واپس آنے کی بجائے میں ریسٹورنٹ میجر ظہور کے پاس جا پہنچا ۔
وہ مجھے اچھی طرح جانتا پہچانتا تھا اور میرے اُس کے مراسم بہت اچھے تھے ۔ میں نے اُسے تمام صورت حال بتائی تو وہ خوب ہنسا ۔ اُس نے مجھے واپس اپنی بیوی کے پاس جانے کا کہا تھا ۔ میں واپس پہنچا تو میری بیوی کھانا شروع کرنے کے لیے میری منتظر تھی ۔ ہم نے کھانا شروع کر دیا تھا کہ کالا چشمہ لانے والا ویٹر پھر سے آیا اور اُس نے بیوی کو اُس سے لیا گیا سو روپے کا نوٹ واپس کیا اور بولا “ سوری میڈم ! وہ چشمہ ان صاحب کا نہیں تھا ۔ جن کا تھا وہ مینجر صاحب کے آفس میں چشمہ لینے کے لئے آئے بیٹھے ہیں ۔
میری بیوی نے اُس سے سو روپے کا نوٹ واپس لے کر اُسے کالا چشمہ واپس کر دیا تھا ۔ اُس نے مجھ سے بھی معذرت کی تھی جو میں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے قبول کر لی تھی ۔ میری بیوی بولی “ سوری ! اُس کی باتیں سُن کر مجھے بھی تمہارے بارے میں غلط فہمی سی ہو گئ تھی “ میری فراخ دلی کی داد دیجئیے کہ میں نے اُسے بھی معاف کر دیا اور کہا “ کوئی بات نہیں جان ! ایسی غلط فہمی ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی ہے۔
(تنویر بیتاب)