ایک 15 سالہ بچے نے اپنے والد سے پُوچھا ” ڈیڈی جب آپ چھوٹے تھے تو انٹرنیٹ ہوتا تھا؟”، باپ نے جواب دیا "نہیں بیٹا جب ہم چھوٹے تھے تب تو ٹی وی بھی کسی کسی کے گھر میں ہوتا تھا اور محلے کے سب لوگ ایک ہی گھر میں جمع ہوکر ٹی وی دیکھا کرتے تھے”۔
بچہ باپ کی بات سُن کر پہلے حیران ہُوا اور پھر بولا” ڈیڈی مجھے آپ کے بچپن پر ترس آرہا ہے جب نہ کوئی ٹیکنالوجی ہوتی تھی اور نہ ہی کوئی انٹرنیٹ ہوتا تھا، موبائل فون بھی نہیں ہوتا تھا، پتہ نہیں اُس وقت آپ کیسے زندہ رہتے ہوں گے”۔
باپ بیٹے کی بات سُن کر مُسکرایا اور بولا ” ہم اُس وقت بلکل ایسے ہی زندہ رہتے تھے جیسے تُم لوگ اب دُعا کرنے کے بغیر نمار پڑھنے کے بغیرزندہ رہتے ہو، بے ادبی سے زندہ رہتے ہو، بغیر شرم کے زندہ رہتے ہو، کتاب سے دُور ہو پھر بھی زندہ رہتے ہو، کوئی سپورٹس نہیں کھیلتے پھر بھی زندہ رہتے ہو”۔
بیٹا باپ کی بات سُن کر تھوڑا شرمندہ ہُوا اور باپ سے بولا مُجھے اپنے بچپن کے بارے میں کُچھ بتائیں ڈیڈی آپ لوگ اپنے بچپن میں کیا کیا کرتے تھے؟”۔
باپ مُسکرایا اور بولا ” جب ہم لوگ چھوٹے تھے تو ٹی وی کمپیوٹر نہیں ہوتا تھا اس لیے ہم سکول کے بعد شام کی سُرخی چھا جانے تک کھیلا کرتے تھے کبھی کرکٹ کبھی فٹ بال اور کبھی ہاکی، ہمارے ساتھ کھیلنے والے ہمارے حقیقی دوست ہوتے تھے انٹرنیٹ فرینڈ زنہیں، کھیل کھیل کر جب تھک جاتے تو ٹوٹی سے پانی پیتے کیونکہ سوڈا بوتلیں نہیں ہوتی تھیں، ہم ایک دوسرے کے گلاس میں آرام سے پانی پی لیتے تھے اور کبھی بیمار نہیں ہُوئے تھے، ہم روزانہ چاؤل کھاتے تھے اور ہمارا وزن کبھی نہیں بڑھا تھا، ہماری ماں جو کھانا پکاتی تھی ہم خاموشی سے اُسے خوش ہوکر کھایا کرتے تھے اور صحت مند رہتے تھے اور ہمارے ماں باپ نے کبھی ہمیں وٹامن اور سپلیمنٹس نہیں کھلائے تھے” باپ اتنا بول کر سوچ میں گُم ہوگیا۔
بیٹےنے پھر سوال کیا ” ڈیڈی آپ کا بچپن تو کافی دلچسپ لگ رہا ہے اس کے بارے میں مزید بتائیں”، باپ تھوڑی دیر سوچتا رہا اور پھر بولا ” ہمارے دور میں ویڈیو گمیز نہیں ہوتیں تھیں اور ہم اپنے کھلونے خود بناتے تھے اور پھر اُن سے کھیلتے تھے، تمہارے سوشل میڈیا کے فرینڈز ہیں مگر ہمارے حقیقی دوست اور رشتہ دار ہوتے تھے اور ہم سب ایک دوسرے کے بہت قریب رہا کرتے تھے، ہم اس دور کی آخری جنریشن ہیں جو اپنے ماں باپ کی ہر بات سُنتے تھے اور اُس پر عمل کرتے تھے اور ہم اس دور کے پہلے والدین ہیں جو اپنے بچوں کی بات کو غور سے سنتے ہیں اور مان بھی لیتے ہیں”۔
بیٹے نے مُسکرا کر باپ کی طرف دیکھا اور باپ سے بغلگیر ہوگیا اور بولا ” آئی لو یو ڈیڈی آئی ایم پراوڈ آف یو”۔