ثنا مکی ایک پودا ہے جسے انگلش میں ثنا پلانٹ کہتے ہیں اور اس پودے کی تقریباً 350 کے قریب نسلیں زیادہ تر زمین کے گرم مرطوب علاقوں میں پائی جاتی ہیں اور اسے عام طور پر طب ایوردیک اور طب یونان کی کئی ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے جہاں یہ کسی اکسیر سے کم نہیں مانا جاتا اور آجکل سوشل میڈیا پر اس کی علیحدہ دھوم ہے مگر میڈیکل سائنس کی اس کے بارے میں اپنی ایک رائے ہے۔
میڈیکل سائنس میں بھی ثنا کے پودے کے پتے بڑی اہمیت کے حامل ہیں اور اس کے پتوں کی چائے بطور قبض کشا میڈیسن کے استعمال کروائی جاتی ہے اور ورلڈ ہیلتھ آرگنائزئش اور امریکی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے اسے بطور ہربل میڈیسن قبول کر رکھا ہے۔
میڈیکل سائنس کے مُطابق اس پودے کے پتوں کی چائے سے وزن کم کرنے میں بھی مدد حاصل کی جاسکتی ہے کیونکہ اسکی چائے جسم کی فاضل چربی کو جلد پگھلانے میں مدد دیتی ہے مگر غذائی ماہرین اس کے قہوے کو وزن کم کرنے کے لیے استعمال کرنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ اسکا زیادہ استعمال صحت کے لیے نقصان دہ ہوتا ہے اور بطور قبض کشا دوائی کے طور پر بھی دو ہفتے سے زیادہ اسے استعمال کرنے سے منع کیا جاتا ہے۔
جدید ریسرچ سے پتہ چلتا ہے کہ ثنا کے پتوں میں اینٹی آکسائیڈینٹ اور اینٹی ٹیومر خوبیاں پائی جاتی ہیں اوراسے کینسر کی کُچھ ادویات میں استعمال بھی کیا جارہا ہے اسکے علاوہ ثنا کے پتوں میں اینٹی اینفلامیٹری خوبیاں شامل ہیں جسکی وجہ سے اسے گلے کی سوزش وغیرہ دُور کرنے کے لیے بھی مفید مانا جاتا ہے۔
ماہرین کے نزدیک اس کا زیادہ لمبے عرصے تک استعمال نقصان دہ ہے اور بہت سے لوگوں میں اسے استعمال کرتے ہی پیٹ میں درد، ڈائریا(زیادہ مقدار استمعال کرنے کی صورت میں ) متلی، اور ان وجوہات کی وجہ سے جسم میں پانی کی کمی واقع ہو سکتی ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے 0.6 گرام سے لیکر 2 گرام تک روزانہ استعمال کرنا چاہیے اور اسے بطور غذا استعمال کرنے سے پہلے ڈاکٹر سے ضرور مشورہ کرنا چاہیے۔
کیا ثنا مکی کے پتے کرونا وائرس کو ختم کر سکتے ہیں؟
اس بات کا میڈیکل سائنس کے پاس اب تک کوئی ثبوت نہیں ہے کے ثنا مکی کے پتے کرونا کے مریض کو تندرست کر سکتے ہیں اور سوشل میڈیا پر کیے جانے والے دعووں کو ڈاکٹر حضرات یکسر مسترد کر چُکے ہیں لہذا اسے اس وبائی وائرس کا علاج سمجھنا ٹھیک نہیں ہوگا لیکن چونکے اس کے پتے ہمارے نظام دفاع کو مضبوط بناتے ہیں اور اینٹی سوزش خوبیاں انتہائی مُفید ہیں اس لیے کبھی کبھار اگر طبیعت پر بُرا اثر نہ پڑے تو اس کا قہوہ پی لینا چاہیے۔