جب اہل دانش نظر انداز کر دئیے جاتے ہیں

Posted by

مدت گزری ایک سلطنت کا بادشاہ بڑا ظالم اور اپنے آپ کو عقل دانش کا منبع سجھتا تھا۔ وہ ہر وقت مختلف حیلوں بہانوں سے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگاتا رہتا۔ جس کی وجہ سے عوام اس سے بےحد تنگ تھے۔ وہ رعایا کی فلاح و بہبود پر کچھ بھی توجہ نہ کر تا۔

وہ ہر وقت خوشامدی لوگوں میں گھرا رہتا جو اس کی ہر جائز ناجائز بات پر اس کی تعریف اور قابلیت کے پل باندھتے رہتے۔ وہ ایسے لوگوں کو ناپسند کرتا جو اس کی غلط باتوں پر اس کی تنقید کرتے۔ ایسے ہی لوگوں میں ایک دانشورمشیر بھی تھا جو اُس کے والد کے زمانے سے دربار میں موجود تھا اور جسکی تنقید کی وجہ سے وہ اسے سخت ناپسند کرتا تھا۔

مشیر ایک انتہائی قابل اور ذہین شخص تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بادشاہ کو اپنی عوام کی فلاح کا خیال رکھنا چاہیے اور عوام کو ٹیکس ادا کرنا اور بادشاہ کا وفادار ہونا چاہیے۔ وہ بادشاہ کو گھیرے ہوئے خوشامدیوں کو سخت ناپسند کرتا تھا جس کی وجہ سے وہ سب ایسے موقع کی تلاش میں رہتے جس پر بادشاہ کے روبرو اسے ذلیل کر سکیں۔

ایک دن مشیر نے بھرے دربار میں کہا کہ اگر کوئی انسان اپنی عقل اور ذہانت کو استعمال کرے تو وہ ہر جگہ اپنی روٹی روزی کا بندوبست کر سکتا ہے۔ بادشاہ جو مشیر سے اس کے سچ بولنے پر پہلے ہی ناراض تھا نے حکم دیا کہ ہم مشیر کے اس قول کی تصدیق چاہتے ہیں ۔

بادشاہ نے حکم دیا کہ مشیر کو گھوڑوں کے اصطبل میں بند کر دیا جائے۔ اسے کوئی تنخواہ نہیں ملے گی اور اصطبل سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔ وہ ایک ماہ میں ایک ہزار سونے کے رائج الوقت سکے اپنی عقل اور ذہانت کو بروے کار لاکر کما کر خزانہ میں جمع کرائے۔ بصورت دیگر اس سے شاہی عہدہ واپس لے لیا جاۓ گا۔

بادشاہ کے اس غیر منصفانہ فیصلہ پر مشیر بڑا دل برداشتہ ہوا مگر ہمت نہ ہارا۔ اس نے بادشاہ سے درخواست کی اور کہا کہ اسے اپنا وزنی کنڈا ساتھ لیجانے کی اجازت دی جائے۔ جو بادشاہ نے منظور کر لی۔ مشیر کو اصطبل میں بند کر دیا گیا۔

مشیر نے گھوڑوں کی خوراک کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ پہلے تو اصطبل کے ملازمین نے خیال کیا کہ مشیر کا دماغ چل گیا ہے پھر بھی انہوں نے مشیر سے خوراک کے وزن کرنے کا سبب پوچھا تو مشیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت نے اسکی ڈیوٹی لگائی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ گھوڑوں کو پوری خوراک دی جا رہی ہے۔

اصطبل کے ملازمین جو گھوڑوں کی خوراک کا ایک بڑا حصہ مارکیٹ میں فروخت کر دیتے تھے یہ جان کر سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے فوری طور پر مشیر سے گریہ زاری شروع کر دی اور بادشاہ کو کچھ نہ بتانے کو کہا۔ انہوں نے اسکے عوض مشیرکا خیال رکھنے اور جو بھی جرمانہ وہ کہے ادا کر نے کو تیار ہیں کا وعدہ کیا اس طرح مشیر نے ایک ماہ میں سونے کے ایک ہزار سکے خزانہ میں جمع کروا دیئے۔

بادشاہ نے مشیر کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ رقم اصطبل سے کما کر خزانہ میں جمع کروائی ہے بلکہ الٹا مشیر پر الزام لگا دیا کہ اس نے یہ رقم باہر سے اکٹھی کر کے خزانہ میں جمع کروائی ہے لہذا مشیر کو دریا پر ایک جھو نپڑی میں بند کر دیا جائے کا حکم دیا اور اُسے کہا کہ اس دفعہ وہ دو ہزار سکے ایک ماہ میں سرکاری خزانہ میں جمع کروائے بصورت دیگر اُس کی گردن اُڑا دی جائے گی۔ مشیر کے پاس بادشاہ کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے دوبارہ ایک بڑا ترازو ساتھ لیجانے کی اجازت مانگی جو منظور کر لی گئی۔

مشیر نےدریا پر اپنے ترازو سے پانی کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ کشتی بانوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو مشیر نے ان کو بتایا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ جو کشتی بان زیادہ سواریاں کشتی میں سوار کرتے ہیں اور اسطرح لوگوں کی جانوں کو خطرےمیں ڈالتے ہیں کی رپورٹ کی جائے تا کہ انہیں سخت سزا دی جائےاور وہ باز رہیں ۔ چونکہ آپ سب زیادہ سواریاں لوڈ کرتے ہیں اس لیے آپ کے خلاف رپورٹ تیار کر رہا ہوں تم سب کو معلوم ہے کہ تم زیادہ سواریاں کشتی میں بٹھاتے ہو۔ لہذا سزا کے لیے تیار رہو۔

تمام کشتی بان یہ جان کر فوراً مشیر سے معافی مانگنے لگے۔ معاملہ اس بات پر طے ہوا کہ وہ ماہ کے آخر تک دو ہزار سکے دینگے اور آیندہ زیادہ سواریاں لوڈ نہیں کریں گے۔ ماہ کے آخر تک کشتی باتوں نے دو ہزار سکے سوداگر کو ادا کر دئیے جو اس نے خزانہ سرکار میں جمع کروا دئیے۔

دو ماہ کے بعد مشیر کو بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا، مشیر اس دفعہ بہت خوش تھا کہ اُس نے اپنی عقل اور دانش سے بادشاہ کے 2 ہزار سونے کے سکے ادا کر دئیے ہیں اور ضرور اُس کو اُس کی اس عقل پر داد ملے گی اور اُسے مشیر سے ترقی دیکر وزیر بنا دیا جائے گا۔

بادشاہ کو جب پتہ چلا کہ مشیر نے اس دفعہ بھی اُس کا دیا ہوا ٹارگٹ جو بادشاہ سمجھتا تھا کبھی پُورا نہیں ہوگا پُورا کر لیا ہے تو وہ دل ہی دل میں شدید غُصہ آیا کہ یہ مشیر اب اُسے دربار میں شرمندہ کرنے پھر آگیا ہے لہذا تیسری دفعہ اُس نے اپنے ایک خوشامدی وزیر جو مشیر سے نفرت بھی کرتا تھا کو اشارہ کیا کے وہ اُس کے قریب آئے اور جب خوشامدی بادشاہ کے قریب آیا تو بادشاہ نے اُس کے کان میں کہا ” اس مشیر کو فصیل سے دھکا دے دو تاکہ اس کی گھٹیا صورت ہم دوبارہ نہ دیکھیں۔

وزیر انتہائی خوش ہوا اور مشیر کو انعام دینے کا کہہ کر فصیل پر لے گیا، جب مشیر فصیل پر پہنچا تو اُس نے وزیر سے کہا میری عقل اور دانش مُجھے دیکھا رہی ہے کہ تُم مُجھے اس فصیل سے دھکا دینے والے ہو لیکن ایک بات یاد رکھنا جب کوئی بادشاہ اہل علم کو اپنے دربار سے یُوں رُسوا کرکے نکالتا ہے تب اُس کے تاج کے دن گنے جا چُکے ہوتے ہیں۔

وزیر نے مشیر کو بات ختم کرنے سے پہلے ہی فصیل دے دھکا دیا اور واپس چلا گیا، ٹھیک 7 دن بعد بادشاہ کی سلطنت پر اُس کے طاقتورپڑوسی مُلک نے حملہ کیا، بادشاہ دربار میں موجود تمام دانشوروں کو چُن چُن کر ختم کر چُکا اور جو ہمیشہ اُسے طاقتور پڑوسی سے جنگ سے بچا لیا کرتے تھے اور خُوشامد ی اُس نے اکھٹے کر رکھے تھے وہ اُسے اس جنگ سے بچانے میں ناکام ہوگئے ، بادشاہ بُری طرح جنگ ہارا اور جب پکڑا گیا تو پڑوسی مُلک کے بادشاہ نے اُسے اُسی فصیل پر کھڑا کر کے جہاں سے مشیر کو دھکا دیا گیا تھا زمین پر دھکا دے دیا ۔

نوٹ : اس کہانی کا نتیجہ آپ اپنی سمجھ اور بصارت کے ساتھ جو مرضی اخذ کر سکتے ہیں۔

Image Preview Credit: Heralder, based on KatepanomegasHeraldic Royal Crown of the King of the Romans (18th Century), Size modify, CC BY-SA 3.0. WIKIMEDIACOMMONS