خالق کائنات نے انسان کے رزق کا ذمہ اپنے اوپر لے رکھا ہے اور وہی تو ہے جو اپنے بندوں کو رزق عطا کرتا ہے اور وہ اپنی کتاب القرآن میں فرماتا ہے کہ جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے تو اللہ اُس کے لیے کافی ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرماتا ہے کہ اللہ اُسے وہاں سے رزق دے گا جہاں سے اُس کو گمان بھی نہیں ہوگا اور اللہ اپنی کتاب قُرآن مجید کے متعلق فرماتا ہے یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک نہیں۔
غربت کیا ہے
زندگی کی ساعتیں آزمائش کی وہ گھڑیاں ہیں جن میں کسی کو دے کر آزمایا جا رہا ہے اور کسی کو غربت میں آزمایا جا رہا ہے۔ اہل علم کا کہنا ہے کہ غُربت کی دو اقسام ہیں ایک اختیاری اور ایک اضطراری، اختیاری غربت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اختیار کی حالانکہ اُن سے پُوچھا گیا تھا کہ اگر آپ کہیں تو ان پہاڑوں کو سونے کے بنا دیا جائے مگر معلم کائنات نے سونے کے پہاڑوں پر غربت کو فوقیت دی، دُوسری غُربت اضطراری ہے جو کہ انتہائی خطرناک چیز ہے اور اب تک نجانے کتنوں کو تباہ کر چُکی ہے۔
اللہ سے رابطہ
دُنیا کے تمام مذاہب کے ماننے والے اپنی عبادات میں خالق کائنات سے رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ رابطہ یک طرفہ ہونے کے سبب جوابی رابطے سے محروم رہتا ہے، آپ نے اپنے خالق سے رابطہ کیسے کرنا ہے اس کا طریقہ ہر چیز پر قادر ذات نے اپنی کتاب القران میں بتایا ہے اور اللہ فرماتا ہے ” اے ایمان والو واستعينوا بالصبر والصلاة” یعنی صبر اور نماز کیساتھ مدد لیا کرو۔ اس آیت جس میں کوئی شک نہیں یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ نماز اللہ کیساتھ ایسا رابطہ ہے جو یک طرفہ نہیں ہے اور اس رابطے کا جواب ملتا ہے اور اللہ خُود ہی فرماتا ہے تُم مُجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا۔
توکل
اور جس نے اللہ پر توکل کیا اللہ اُسے کبھی ناکام نہیں ہونے دیتا اس لیے اگر اللہ سے مدد چاہتے ہو تو غیر اللہ سے نظریں ہٹا دو اور اپنا توکل صرف اور صرف اُس کی ذات پر رکھو کیونکہ وہی تو ہے جس سے زمین اور آسمان کے رہنے والے ازل سے سوال کر رہے ہیں اور بیشک وہ سُننے والا اور بصیر ہے۔
رزق کی فروانی
اہل ایمان یہ جانتے ہیں کہ ہر چیز کا مالک اور خالق رب کائنات کے سوا اور کوئی نہیں اس لیے وہ ہمیشہ اُسی سے مدد کے طلب گار ہوتے ہیں نماز کیساتھ صبر اور توکل کیساتھ اس لیے اگر آپ بھی اپنے رزق میں فروانی چاہتے ہیں تو اس طریقہ کار کو اپنا لیجئے اور دن میں ایک دفعہ کسی بھی نماز کے بعد 313 دفعہ اُسے پُکارئیے اُس کے نام یا الرزاق اور اس تسبیح کو اپنی روزانہ کی زندگی میں شامل کر لیجیے۔
پُکارنا کسے کہتے ہیں
پُکارنے اور مانگنے میں فرق ہوتا ہے، شیر خوار بچے کو جب بُھوک لگتی ہے تو وہ ماں سے دُودھ مانگتا نہیں ہے بلکہ رو کر اُسے پُکارتا ہے اور اُس وقت ماں جانتی ہے کہ اُسے کیوں پُکارا جا رہا ہے پھر وہ بے چین ہو جاتی ہے اور اپنا تمام کام چھوڑ دیتی ہے اور بچے کے دُودھ کا بندوبست کرتی ہے اس لیے جب تُم رزق میں فروانی چاہو تو مانگنا نہیں بلکہ پُکارنا شروع کر دو بلکل شیر خوار بچے کی طرح اور پھر یقین رکھو کیونکہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ بھروسہ رکھنے والوں کو وہاں سے عطا کرے گا جہاں سے اُن کو گھمان بھی نہیں ہوگا اور بیشک اللہ اپنے وعدے کو پُورا کرتا ہے۔