نوٹ: تنویر بیتاب صاحب کے قلم سے لکھی گئی یہ کہانی فیصل آباد کے ایک نوجوان کی سچی کہانی ہے جس میں کہانی کے کرداروں کے نام بدل دئیے گئے ہیں اوراسے آپ لوگوں کو سُنانے کا مقصد یہ ہے کہ اس عالمی وبا کے دوران جذبات کو عقل پر حاوی نہ آنے دیں وگرنہ آپکے ساتھ آپکے پیارے بھی اس بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
عمران لندن میں پھنس چُکا تھا ۔ وہ ایک ماہ قبل کاروبار کے سلسلے میں پاکستان سے انگلینڈ آیا تھا ۔ اُس کی واپسی کی ٹکٹ کنفرم تھی مگر واپس روانگی سے تین دن قبل کی کرونا وائرس کی وجہ سے تمام فلائٹس کینسل ہو گئیں تھیں ۔ وہ ائرپورٹ کے نزدیک ہی ایک ہوٹل میں ٹھرا ہوا تھا ۔ اُسے کُچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب وہ کیا کرے ؟۔
عمران کی بیوی اور بچے پاکستان میں اُس کے لئے پریشان تھے ۔ مایوسی اور بے یقینی کے اس عالم میں ایک صُبح اُس کے لئے یہ خوش خبری لے کر آئ کہ پی آئ اے کی ایک خصوصی آخری پرواز پاکستان جائے گی ۔ عمران نے پُوری کوشش کر کے اُس فلائٹ میں اپنی سیٹ کنفرم کروا لی ۔ جب وہ اسلام آباد کے ہوائ اڈے پر اُتر تو اُس کی خوشی اور اطمینان اُس کے چہرے سے جھلک رہا تھا ۔ ائرپورٹ کے آرائیول گیٹ کے بلکل سامنے اُس کی بیوی اُس کے بچوں کیساتھ اُس کی منتظر تھی ۔
عمران کے باہر نکلتے ہی سب کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کر کے اُس سے لپٹ گئے ۔ عمران کو واپس گھر پہنچے تیسرے دن زکام اور کھانسی شروع ہو گئی تھی اُس نے قریبی ڈاکٹر سے دوا لی مگر کُچھ افاقہ نہ ہوا بلکہ چھٹے روز اُسے بخار بھی ہو گیا۔
ڈاکٹر نے اُسے کُچھ ٹیسٹ کروانے کا کہا وہ قریبی لیبارٹری میں ٹیسٹ کے لئے مطلوبہ سیمپل دے آیا ۔ اگلے دن اچانک اُن کے گھر کے باہر کی فضا ایمبولینس اور پولیس گاڑی کے سائرن کی آوازوں سے گونج اُٹھی ۔ اردگرد کے گھروں کے مکین باہر نکل آئے ۔
کرونا وائرس سے بچاؤ کے خصوصی حفاظتی لباس میں ملبوس اہلکاروں نے عمران کے گھر کی کال بیل بجائی ۔ عمران باہر آیا تو اُسے بتایا گیا کہ اُس کو کرونا کے ٹیسٹ کا رزلٹ پازیٹو آیا ہے اُسے فوری طورپر اُن کے ساتھ قرنطینہ مرکز جانا ہو گا ۔ عمران کو کپڑے بدلنے اور اپنا ضروری سامان کا بیگ لینے کی اجازت دے دی گئی ۔
جب اُسے گھر سے قرنطینہ مرکز لے جایا جا رہا تھا تو اُس کے گھر کے باہر لوگوں کا ایک جم غفیر جمع ہو چُکا تھا ۔ منچلے اپنے اپنے موبائل فون سے اُس کی ویڈیوز بنا رہے تھے ۔ میڈیا کے کیمرہ مین بھی ریکارڈنگ میں لگے تھے ۔ بعض چینل تو یہ سب کُچھ براہ راست ناظرین کو دکھا رہے تھے ۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ کوئی مریض نہیں بلکہ کوئ دہشت گردہ پکڑا گیا ہے ۔
کُچھ ہی دیر میں اُسے قرنطینہ مرکز منتقل کر دیا گیا ۔ اگلے ہی دن عمران کے گھر والوں کے کرونا ٹیسٹس کئے گئے تو سب کے ٹیسٹس کا رزلٹ ہی پازیٹو آیا جس پر اُن سب کو بھی قرنطینہ کر دیا گیا ۔ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے زریعے عمران اور اُس کے خاندان کے افراد میں کرونا مرض کی خوب تشہیر کی گئ ۔
عمران قرنطینہ مرکز بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اُس کی ایک غلطی کا خمیازہ آج اُس کے تمام گھر والوں کو بھگتنا پڑا ہے ۔ اُس کی وہ غلطی خود کو کرونا کا مریض ہونے کا نہ بتانا تھا۔ دراصل اُس میں کرونا وائرس ہونے کی تصدیق لندن میں ہی ہو گئی تھی ۔
لندن کے ہسپتال میں اُس کے کرونا کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آنے پر اُسے پاکستان کا سفر مُلتوی کرنے اور قرنطینہ مرکز میں آئسولیٹ ہو جانے کا کہہ دیا گیا تھا۔ وہ نہ صرف وہاں سے کھسک آیا تھا بلکہ پاکستان بھی چلا آیا تھا اور یہاں آکر بھی اُس نے سب سے ہی یہ بات چُھپائے رکھی تھی ۔