جسکے دل میں ذرہ برابر بھی کینہ اور حسد رہ جائے وہ کبھی بے ضرر نہیں ہوسکتا

Posted by

رات کے تقریباً 9 بجے کا وقت تھا نیو یارک میں مین ہٹن کے ایک ہسپتال کی ایمرجنسی میں روڈ ایکسڈینٹ میں زخمی ہونے والے ایک شخص کو لایا گیا جو بے ہوشی کی حالت میں تھا، ڈاکٹرز نے اُس کا علاج شروع کیا اور ابتدائی مرہم پٹی کر کے اُسے ہسپتال کے ایک کمرے میں شفٹ کر دیا گیا۔

اگلے دن جب اُس کی خدمت پر مامور نرس اُس شخص کے کمرے میں داخل ہوئی تو اُس نے عجیب منظر دیکھا، اُس نے دیکھا کے مریض بے ہوش ہے اور کمرے کی کھڑکی، روشن دان اور بیڈ پر بہت سے پرندے بیٹھے ہیں، یہ پرندے ایسے بیٹھے تھے جیسے اُس شخص کی عیادت کرنے آئے ہوں اور اُس کی صحت یابی کی دُعا مانگ رہے ہوں۔

جونہی نرس مریض کے بیڈ کے قریب پہنچی تمام پرندے اُڑ کر کھڑکی سے باہر دیوار پر جاکر بیٹھ گئے، پھر تو یہ معمول بن گیا ہر روز نرس اُس مریض کو دوا دینے اُس کے کمرے میں ہوتی تو تمام پرندے چڑیاں طوطے اور کبوتر کمرے میں کھڑکی، روشن دان اور کُچھ اُس کے بستر پر بیٹھے ہوتے اور نرس کو دیکھتے ہی اُڑ جاتے۔

C:\Users\Zubair\Downloads\seagull-659344_1920.jpg

آخرکار پانچ دن بعد اُس شخص کو ہوش آگیا اور دھیرے دھیرے اُس کی حالت بہتر ہونے لگی، جس دن اُسے ہسپتال سے ڈسچارج کیا جانا تھا اُس دن وہ انگریز لڑکی جو بطور نرس وہاں ڈیوٹی کرتی تھی اُس شخص کے پاس آئی اور حال چال دریافت کرنے کے بعد اُس نے پوچھا ” کیا آپ نیویارک میں اکیلے رہتے ہیں کیونکہ آپ کی بیماری کے دوران کوئی بھی آپ کی خیریت دریافت کرنے نہیں آیا”۔

اُس شخص نے جواب دیا "میرے ماں باپ کا انتقال ہو چُکا ہے اور میں اُن کی اکلوتی اولاد ہُوں، اب تک شادی نہیں کی تو ظاہر ہے بیوی بچے بھی نہیں ہیں اور میں اکیلا ہی رہتا ہُوں مگر جہاں تک یہ بات کہ کوئی میری خیریت دریافت کرنے نہیں آیا تو کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ ہر روز اس شہر کے پرندے میرے خیریت پوچھنے آتے ہیں میرے پاس آکر بیٹھتے ہیں اور میرے لیے دُعا کرتے ہیں، کیا اس سے پہلے آپ نے کبھی اس کمرے میں پرندوں کو آتے دیکھا؟”۔

نرس نے انکار میں سر ہلایا اور بولی ” میں 10 سال سے اس ہسپتال میں بطور نرس ملازمت کر رہی ہُوں اور آج تک میں نے ایسا نہیں دیکھا آخر آپ کون سا ایسا عمل کرتے ہیں کہ اتنے سارے پرندے آپ سے پیار کرتے ہیں؟”۔

وہ شخص بولا ” پچھلے کئی سال سے میرا معمول ہے کہ میں اپنے گھر کے قریب پارک میں جاکر ان پرندوں کو دانہ ڈالتا ہُوں ان کی خدمت کرتا ہُوں، شروع شروع میں یہ مُجھ سے ڈرتے تھے مگر پھر آہستہ آہستہ میرے دوست بن گئے ، جب میں پارک میں جاتا ہُوں یہ سب میرے پاس آجاتے ہیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہے ہوں، میں ان سے باتیں کرتا ہُوں ان کو کھانا کھلاتا ہُوں اور اگر کوئی پرندہ زخمی ہو، بیمار ہو یا کمزور ہو گیا ہو تو میں اُسے اپنے ساتھ گھر لیجاتا ہُوں اور اُس کی سیوہ کرتا ہُوں اور جب وہ ٹھیک ہوجائے تو اُسے واپس کھلی فضا میں چھوڑ دیتا ہُوں، قُدرت نے میرے دل میں ان پرندوں اور ان پرندوں کے دل میں میری محبت ڈال رکھی ہے”۔

نرس نے اُس شخص کی بات سُن کر کہا” کیا یہ ممکن ہے کہ اس دُنیا کی ہر مخلوق مجھ سے بھی محبت کرے اور میرے لیے بھی دُعا خیر کرے؟”۔

وہ شخص بولا ” اگر تُم چاہتی ہوکہ اس کائنات کی ہر مخلوق تُم سے محبت کرے اور تُم سے ہمکلام ہوتو سب سے پہلے اپنی ذات کو مخلوق کے لیے بے ضرر کردو اور جس کے دل میں ایک ذرہ بھی کینہ اور حسد ہوتا ہے وہ کبھی بے ضرر نہیں ہوسکتا وہ ایک چلتا پھرتا نقصان بن جاتا ہے”۔

پھر وہ شخص بولا ” اگر تُم چاہتی ہو اس کائنات کی مخلوقات تمہارے لیے دُعا کریں تو اپنے رزق میں انہیں بھی شامل کر لو، بظاہر ان پرندوں کی کوئی حثیت دیکھائی نہیں دیتی لیکن قُدرت کو اپنی ہر تخلیق سے پیار ہے اور کوئی بھی چیز اُس نے بیکار پیدا نہیں کی”۔

کُچھ دیر خاموش رہ کر وہ شخص دوبارہ بولا ” اگر تُم چاہتی ہو کہ آسمان پر اُڑتے پرندے تُم سے اپنے دل کی باتیں کریں تو سب سے پہلے انسانوں سےگفتگو کرنا سیکھو کیونکہ جب تک آپ اپنے جیسوں کی عزت اور قدر کرنا نہیں سیکھتے تب تک کوئی اور آپ سے اپنے دل کی بات نہیں کرتا”۔

اُس شخص کی آواز میں گہرائی تھی اور بول رہا تھا "اگر تُم ان سُنی آوازوں کو سُننا چاہتی ہوتو نفرت سے کہو کہ وہ تمہارے وجود کا راستہ بھول جائے، اگر تُم چاہتی ہو کہ اس کائنات کی ساری مخلوق تُمہاری عزت اور احترام کرے تو بنا رنگ نسل ذات برادری اور مذہب کی تفریق کے لوگوں کے زخموں کے لیے مرہم بن جاؤ، جو لوگ خُود کو دُوسروں سے برتر اور دُوسروں کو کمتر سمجھتے ہیں تو ایک دن ایسا آتا ہے کہ وہ لوگ اور اُن کی انا دونوں خاک کی چادر اوڑھ کر صف ہستی سے مٹ جاتے ہیں اور اُن کی داستان تک باقی نہیں رہتی”۔

اپنے اندر اوصاف پیدا کرو نا ممکن بھی ممکن ہوجائے گا وگرنہ ممکن بھی نا ممکن ہی رہے گا، یہ پرندے بڑے صُوفی مزاج ہوتے ہیں اپنے ساتھ کی جانے والی نیکیاں بھولتے نہیں ہیں اور دل سے دُعا دیتے ہیں، یہ حضرت انسان کی طرح لالچ نہیں کرتے ، رزق کو اپنے پروں میں چُھپا کر نہیں اُڑتے، اپنے حصے کا کھا کر باقی دوسروں کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

نوٹ: یہ کہانی عزیر رشید کے قلم سے وجود میں آئی اورخواتین و حضرات اس کہانی سے اگر کوئی سبق آپ لوگوں کو ملا ہوتو اسے دُوسروں تک بھی پہنچائیے گا۔