میں وہ ہوں جس کے بچپن میں ہی میرے والد نے میرے اندر فرمانبرداری کوٹ کوٹ کر بھر دی۔ جی ہاں کوٹ کوٹ کر ۔ کوٹنے کے لئے وہ تھپڑ، جوتا اور ڈنڈا استعمال کرتے تھے۔ میں اپنے لڑکپن میں ہی اتنا فرماں بردار ہو گیا تھا کہ ایک بار میرے والدنے مجھے اپنی موٹر سائیکل پنکچر لگوانے کے لئے دے کر بھیجا۔
پنکچر لگانے والے نے ٹیوب چیک کی تو اس میں بہت زیادہ پنکچر تھے۔ اس نے مجھے بتایا کہ بائیس پنکچر ہیں اور مشورہ دیا کہ بائیس پنکچر لگوانے کی بجائے نئی ٹیوب ہی ڈلوا لوں کیونکہ بائیس پنکچر گیارہ روپے میں لگنے تھے جب کہ نئی ٹیوب آٹھ روپے میں ڈل جانی تھی مگر میں نہ مانا ۔
دکان پر بیٹھے ایک اور گاہک نے بھی مجھے سمجھایا کہ بائیس پنکچر لگنے کے بعد یہ ٹیوب بے کار ہو جائے اس لئے نئی ٹیوب ڈلوانا ہی بہتر ہو گا مگر میں نے انہیں بتایا کہ مجھے میرے والد نے پنکچر لگوانے بھیجا ہے نئی ٹیوب ڈلوانے نہیں ۔ میں نے ضد کر کے بائیس پنکچر ہی لگوائے۔ گھر پہنچا تو والد صاحب گھر کے باہر ہی بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی تاخیر کا سبب پوچھا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ بائیس پنکچر تھے ۔
اتنے پنکچر لگوانے میں دیر تو لگنا ہی تھی ۔ وہ غصے سے لال پیلے ہوتے ہوئے بولے “ ابے ۔۔ گدھے اگر اتنے پنکچر تھے تو نئی ٹیوب کیوں نہ ڈلوا لی ؟ میں نے انہیں بتایا کہ دکان دار تو یہی کہہ رہا تھا مگر میں نے آپ کی فرماں برداری نہ چھوڑی اور آپ کے حکم کے مطابق پنکچر ہی لگوائے۔ انہوں نے میری فرمانبرداری کی شان میں وہ الفاظ و القاب بولے جو قطعی طور پر ناقابل اشاعت ہیں ۔
میری شادی ہوئی تو بیوی نے میری فرمانبرداری کا رخ اپنی طرف موڑ لیا ۔ میری ماں مجھے زن مرید ، رن مرید ، نوکر ووہٹی دا ، جورو کا غلام جیسے القابات سے پکارتی رہی ۔ میں آج بھی بلکل وہی کرتا ہوں جو میری بیوی کہتی ہے۔ ابھی چند ہی دن پہلے اس نے مجھے ایک چٹھی دی جو معروف شاعر و ادیب ڈاکٹر ریاض مجید کے نام تھی۔
اس میں اس کی لکھی کچھ غزلیں تھیں جن پر اصلاح لینا مقصود تھا۔ میں لفافہ تھامے ڈاک خانے پہنچا اور چھٹی یو ایم ایس کروانے کے لئے قطار میں کھڑا ہوگیا۔ کچھ ہی دیر بعد میرے پیچھے قطار ڈاکٹر ریاض مجید آ کھڑے ہوئے ۔ میں نے انہیں سلام کیا اور بتایا کہ میں انہیں چٹھی بھیجنے کے لئے ہی آیا ہوں۔ انہوں نے میرے ہاتھ میں پکڑی چٹھی دیکھی اور بولے “ یار ! تم یہ چٹھی مجھے یہیں دے دو” میں نے عرض کی کہ نہیں جناب میری بیگم نے مجھے یہ چٹھی یو ایم ایس کروانے کو کہا اور رسید لانے کو بھی ۔
انہوں نے کہا کہ میں رسید ان سے لے لوں ۔ یوں چٹھی آج ہی انہیں پہنچ جائے گی ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلے دن سے عید کی سرکاری چھٹیاں شروع ہو جائیں گی یوں یہ چٹھی چھ دن بعد ان کو ملے گی مگر میں نہیں مانا ۔ میں نے چٹھی انہیں دینے کی بجائے یو ایم ایس ہی کروائی۔
گھر واپس آ کر بیوی کو چٹھی یو ایم ایس کروانے کی رسید دی اور ساتھ ہی ڈاکٹر ریاض مجید سے ہوئی ملاقات کا احوال بھی سنایا۔ میری بیگم شدید غصے میں آگئی اور مجھے عقل نہ استعمال کرنے پر سخت سست کہا ۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھے وہ چھٹی یو ایم ایس کروانے کی بجائے ڈاکٹر صاحب کو دے دینی چاہئیے تھی۔ مجھے تو سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بندہ فرمانبردار بھی رہے اور عقل بھی استعمال کرے ۔
فرما نبرداری اور عقل تو ایک دوسرے کی ضد ہیں ۔ مختلف عقیدوں کے ماننے والے اور ایک دوسرے سے لڑنے والے بھی بہت اچھے فرمانبردار اسی لئے تو ہوتے ہیں کہ وہ عقیدے کے معاملے میں عقل کا استعمال بلکل بھی نہیں کرتے ۔ جو عقیدے کے معاملے میں عقل کا استعمال کرتے ہیں وہ عقیدے کے اچھے فرمانبردارکب ہوتے ہیں؟۔
(تنویر۔ بیتاب)