جوگاڑ انسان کی اُس دریافت کو کہتے ہیں جو وہ کسی خاص ضرورت کے پیش نظر کم ترین وسائل میں بناتا ہے اور اپنی ضرورت کا کام اُس سے حاصل کرتا ہے۔
جُوگاڑ لگانے کے لیے تعلیم کی کوئی قید نہیں ہے مگر جوگاڑ لگانے کے لیے ذہانت اور عقل کی ضرورت ہے، اس آرٹیکل میں چند ایسی جوگاڑیں شامل کی جارہی ہیں جو جہاں آپ کی تفریح طبع کا باعث بنیں گی وہاں آپ کو ایک زبردست سائنس بھی سیکھائیں گی۔
نمبر 1 کٹ اور پیسٹ گاربیج ٹرک
جب کام کرنا ہو اور وسائل نہ ہوں تو کام کرنے والے ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ نہیں جاتے بلکے وہ اپنی ضرورت کو پُورا کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی جُوگاڑ کا استعمال کرتے ہیں اور یہی جوگاڑ ٹیکنالوجی انڈیا میں گند لیجانے والی اس گاڑی میں استعمال ہوئی ہے جسے کراچی کی انتظامیہ کو ضرور دیکھنا چاہیے۔
نمبر 2 کُوکرسٹیمر
چائے اور کافی میں سٹیم بنانے والی مشین ایک مہنگی مشین ہے جو بیچارہ غریب ریڑھی والا افورڈ نہیں کرپاتا لیکن عقل اور دانش کسی امیر کی میراث نہیں جو پیسے سے ہی حاصل ہو چنانچہ ریڑھی والے نے عام گھریلو کھانا پکانے والے کُوکر کو سٹیم بنانے کے لیے بطور جوگاڑ استعمال کیا اور انتہائی کم وسائل میں اپنی ضرورت کو پُورا کیا جس پر بیشک دیکھنے والے اُسے داد تحسین دئیے بغیر نہیں جاتے ہوں گے۔
نمبر 3 آٹا پیسنے والا سکوٹر
آٹا پیسنے کے لیے کبھی انسان ہاتھ کی چکی استعمال کرتا تھا اور سارا دن سخت محنت کر کے بھی تھوڑا سا آٹا ہی پیس پاتا تھا، کہتے ہیں گندھارا تہذیب میں ہاتھ چکی پر آٹا پیسنے والے سارا دن بیٹھ کر آٹا پیسا کرتے تھے اور اُن کے جسم حرکت نہ کرنے کی وجہ سے جُڑ جاتے تھے اور اُنہیں ایک جگہ سے دُوسرے جگہ لیجانے کے لیے کسی کو اُٹھا کر لیجانا پڑتا تھا۔
سائنس نے آج کے دور میں آٹا پیسنے کے لیے بجلی سے چلنے والی چکیاں ایجاد کرکے انسان کو ایک خُوبصورت سہولت دی لیکن اگر آپ پاکستان جیسے ملک میں رہتے ہیں اور آپ کے پاس بجلی سے چلنے والی چکی تو ہے مگر بجلی نہیں ہے تو ضرور سکوٹر چکی آپکے کام آنے والی بہترین جوگاڑ ہے۔
نمبر4 لیپ ٹاپ ہولڈر

دور جدید میں کمپیوٹر نے انسان کے بہت سے کام آسان کر دئیے اور اگر یہ کہا جائے کے آج کے دور میں کمپیوٹر کے بغیر گُزارا ممکن نہیں تو غلط نہ ہو گا، آج کے نوجوانوں کی پڑھائی سے لیکر انٹرٹینمٹ تک کمپیوٹر کی محتاج ہے جسے وہ رات سونے سے پہلے بھی اپنے ساتھ بستر پر لیجاتا ہے، تصویر میں نظر آنے والی جوگاڑ ایک ایسی سائنس ہے جو اس سہل پسند نوجوان نے اپنی آسانی کے لیے سوچی اور وہ نہ صرف اُس کے کام آئی بلکے دیکھنے والے کی تفریح طبع کا باعث بھی بنی جس پر بیشک اس جوگاڑ کا خالق داد تحسین کا مستحق ہے۔
نمبر 5 واٹر شاؤر
منرل واٹر کی خالی بوتل جسے ہم عام طور پرمعمولی سمجھ کر پھینک دیتے ہیں کوئی معمولی چیز نہیں ہے اور جوگاڑ سائنس کو سمجھنے والے اس معمولی خالی بوتل سے ایسی چیزیں دریافت کرلیتے ہیں جو اگر بازار سے خریدنے جائیں تو جیب پر بھاری پڑتی ہیں۔ تصویر میں نظر آنے والی پانی کی بوتل کو پودوں کو پانی دینے کے لیے واٹر شاؤر میں تبدیل کر کے اس جوگاڑ کے خالق نے بہت سے لوگوں کی مشکل آسان کر دی۔
نمبر 6 موٹر سائکل ڈونکی پمپ
جو لوگ دور دراز کے گاؤں میں رہتے ہیں اور غربت کی وجہ سے پانی کھینچنے کے لیے کئی کئی گھر ملکر صرف ایک ڈونکی پمپ پر گُزارا کرتے ہیں اور بدقسمتی سے اگر کبھی اُس پمپ کی موٹر خراب ہوجائے تو پھر نئی موٹر آتے آتے کئی دن لگ جاتے ہیں ایسی صورتحال میں اس جوگاڑ کے خالق نے موٹر سائیکل کو بطور موٹر استعمال کر کے ایک ایسا کام کیا ہے جس پر اسے اگر امن کا نوبل ایوارڈ دیا جائے تو کم نہ ہوگا۔
نمبر 7 موٹر سائئکل ٹوچن جوگاڑ
نمبر 7 موبائل چارجر بیٹری
موبائل کی بیٹری ختم ہوجائے اور چارجر کی سہولت میسر نہ ہو تو ہر آدمی جانتا ہے کہ اُسے کتنی کوفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، خاص طور پر ایسے علاقے میں جہاں بجلی بھی میسر نہ ہو لیکن ایسی صورتحال میں جب کوئی انسانیت کا ہمدرد جوگاڑ سائنس کو استعمال کرکے گاڑی کی بیٹری سے موبائل چارج کرنے کی سہولت مہیا کردے تو بیشک وہ انسانیت کا محسن ہی سمجھا جاتا ہے۔
نمبر 8 سستا لاہوری کولر
جب بجلی کا بل حد سے گُزر جائے اور بل بھیجنے والے بل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بجلی بھی کاٹ دیں اور غریب بیچارہ گرمی میں فرائی ہو جائے تو ایسے موقع پر وہ خاموش نہیں بیٹھتا، تصویر میں نظر آنے والا لاہوری کولر آپ چندا بیٹری سیل سے بھی چلا سکتے ہیں اور انتہائی سستا بننے والا یہ کولر جب گرمی میں ہوا بند ہو تو کسی اے سی سے کم نہیں لگتا۔
نوٹ: اس کولر کو استعمال کرنے کے لیے مُنہ کو پنکھے کے بلکل قریب کر لیں تاکہ اس کی افادیت سے پوری طرح مستفید ہو سکیں۔
نمبر 9 پیٹر انجن ٹرک
جب حکومت گاڑیوں پر سینکڑوں فیصد ٹیکس لگا دے اور غُربت کی چکی میں پسنے والے غریب مر کر بھی اپنی ضرورت کے لیے گاڑی نہ خرید سکیں تب جوگاڑ پیدا ہوتی ہے اور یہ جوگاڑ جہاں غریب کی ضرورت کو پُورا کرتی ہے وہاں حکومت وقت کو بھرے بازار میں ایسے شرمندہ کرتے ہُوئے گُزرتی ہے کہ اگر حکومت وقت کو ذرہ سی بھی شرم ہو تو اس جوگاڑ کے نیچے آکر اپنی جان دے دے، بیشک اس گاڑی کی جوگاڑ کے خالق کو امن کا نوبل ایوارڈ دیا جائے تو بھی اس کی اس جوگاڑ کو سراہنے کا حق پُوری طرح ادا نہ ہوگا، شائد اسی لیے امن کے نوبل ایوارڈ والے بھی اس کے خالق کو نظر انداز کر رہے ہیں۔
نمبر 10 شوق دا کوئی مُل نہیں