جہاز کے پہیے میں سفر کرنا اگرچہ موت کو دعوت دینا ہے لیکن پھر بھی دُنیا میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جس میں لوگ جہاز کے لینڈینگ گیئر میں چھپ کر سفر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک اندازے کے مطابق ہر چار میں سے 3 اس کوشش میں اپنی جان سے جاتے ہیں اور اب تک جو لوگ اس سفر میں بچے ہیں اُن کی فلائٹ زیادہ لمبی نہیں تھی۔
اس آرٹیکل میں ہم اُن خطرات اور خدشات کا ذکر کریں گے جو پہیے میں سفر کرنے والے مسافر جنہیں سٹوآوے پسینجر کہا جاتا ہے کو لاحق ہوتے ہیں اور پھر میں اکثر اس ان سے بچ نہیں پاتے۔
حال ہی میں پڑوسی ملک میں ہونے والے فضائی حادثہ جس میں امریکن ائرلائن کے پہیوں سے گر کو 3 افراد کے لقمہ اجل بننے کی ویڈیوز تو سوشل میڈیا پر دیکھی گئیں لیکن عام طور پر سٹوآوے مسافر جب جہاز سے گرتے ہیں تو اُن کا کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا کیونکہ سمندر اور بیابان میں گرنے والوں کا اکثر کسی کو پتہ نہیں چلتا لیکن جو لوگ شہروں پر گرتے ہیں جیسے 2018 میں کینیا ائرلائن جو نیروبی سے لندن کے لیے اُڑی تھی کے لینڈینگ گئیر سے ایک مسافر اُس وقت گر گیا جب طیارہ لندن ہیتھرو ائرپورٹ پر لینڈ کرنے والا تھا اور گرنے والی کی باڈی لندن بارو آف کلیفم کے گارڈن میں گری۔
ایک اور مشہور سٹوآوے پسینجر حادثہ لندن میں ہی 2015 میں ہُوا جب ایک 29 سالہ مرد برٹش ائروئز کی فلائٹ جو جوہانسبرگ سے لندن کے لیے لیے پرواز کر رہی تھی سے لندن بارو آف ریچمینڈ کی عمارت پر گرا اور جان سے گیا لیکن 11 گھنٹے کی اس طویل فلائٹ میں اُس کے ساتھ سفر کرنے والا ایک اور مسافر بچ گیا جسے بعد میں شدید زخمی ہونے کی وجہ سے ہسپتال داخل ہونا پڑا۔
3 بنیادی خطرات
جہاز کے اندر اور جہاز کے باہر پہیے وغیرہ میں سفر کرنے والوں کو 3 بُنیادی خطرات لاحق ہوتے ہیں جنہیں جہاز کے کیبن کے اندر کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جہاز جیسے ہی فضا میں بُلند ہونا شروع کرتا ہے تو باہر فضا کا درجہ حرارت سرد ہونا شروع کر دیتا ہے اسی لیے جہاز کے کیبن میں ایسے ائرکنڈیشنرز نصب ہوتے ہیں جو کیب کے اندر درجہ حرارت کو کنٹرول کرتے ہیں۔
درمیانی اور لمبے وقت کی فلائٹس عام طور پر 30 ہزار فٹ سے 35 ہزار فٹ تک کی بُلندی پر سفر کرتی ہیں اور اس بُلندی پر باہر کی فضا کا درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سے منفی 60 ڈگری تک پہنچ جاتا ہے اور ایسی صُورت میں سٹوآوے مسافر کو سردی سے ہائپرتھرمیا اور فروسٹ بائٹ ہونے کے خدشات بڑھ جاتے ہیں اور اگر ایسی حالت میں وہ بچ بھی جائے تب بھی جسم کے اندرونی اعضا کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔
دُوسرا بنیادی خطرہ جہاز کے اتنی بلندی پر سفر کرنے سے بڑھنے والا ہوا کا پریشر ہے جسے جہاز کے کیبن میں آرٹی فیشل طریقوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے لیکن کیبن کے باہر جب پریشر بڑھتا ہے تو سٹوآوے مسافر کے لیے سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ اُس کے پاس گراونڈ لیول کا ائرپریشر نہیں ہوتا۔
تیسرا بڑا خطرہ ہوا میں اتنی بُلندی پر آکسیجن کی کمی ہے اور اس کمی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہماری فضا کی آدھی سے زیادہ آکسیجن 18 ہزار فٹ یعنی تقریباً ساڑھے پانچ کلومیٹر کی بلندی سے نیچے نیچے ہے اور اس بُلندی کے اوپر یہ کم ہوتی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاز کے اندر آکسیجن کو آرٹی فیشل طریقوں سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
لوگ اس سفر میں کیسے بچ جاتے ہیں
اس خطرناک سفر میں جو وجوہات موت کا سبب بنتی ہیں وہی جان بچانے کا باعث بھی بن سکتی ہیں کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاز کی مستقل پرواز سے جسم کو ہاپوکسیا کی بیماری لاحق ہوتی ہے جس سے آہستہ آہستہ اعصاب پر کنٹرول ختم ہوتا ہے اور جب درجہ حرارت انتہائی کم ہوتا ہے تو سردی سے پیدا ہونے والا ہائپرتھرمیا گہرے ہائپوکیسا کا باعث بنتا ہے۔
عام الفاظ میں ایسے موقع پر انسانی جسم کمپیوٹر کی طرح ہائبرنیٹ ہوجاتا ہے جس میں اُسے زندہ رہنے کے لیے انتہائی کم توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے وقت میں جسم کی بیرونی سطح کا درجہ حرارت 80.5 فارن ہیٹ یا 27 ڈگری سے کم ہوجاتا ہے اور دل کی دھڑکن آہستہ ہوجاتی ہے جس سے کم آکسیجن میں بھی انسان کا گزارا ہوتا رہتا ہے اس حالت کو میڈیکل سائنس میں پویکلوتھرمیک کہتے ہیں اور اس حالت سے اگر کوئی وقت پر باہر نہ آ سکے تب بھی وہ جہاز کے پہیے میں موت کا شکار ہو جاتا ہے۔
دیگر خطرات
جہاز کے پہیے میں سفر کرتے ہُوئے شدید سردی واحد خطرہ نہیں ہے کیونکہ جب جہاز ٹیک آف کرتا ہے تو اُس کے پہیے 240 سے 285 کلومیٹر کی رفتارسے گھومتے ہیں اور اس رفتار سے گھومنے پر وہ شدید گرم ہوجاتے ہیں اور اگر ایسے موقع پر پہیے میں چھپے بیٹھے مسافر کا ہاتھ یا جسم اُن سے چھو جائے تو یہ اُس کے لیے شدید تکلیف دہ ہوگا اور اسکے ساتھ ساتھ پہیے میں بہت کم جگہ ہوتی ہے جسکی وجہ سے وہاں آرام سے بیٹھنا دُشوار ہوجاتا ہے اور فضا میں بُلندی پر خون میں کلاٹ جمنے کی بیماری بھی پیدا ہو سکتی ہے جس سے دل کا دورہ اورفالج ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
Featured Image Preview Credit: Olivier Cleynen, CC BY-SA 3.0, via Wikimedia Commons