حقیقی بیوی اور اعزازی بیوی

Posted by

ہال میں مشاعرہ جاری تھا ۔ میں سیگرٹ پینے کے لئے ہال سے باہر آیا تھا۔ کنٹین کے پاس کھڑے ہو کر میں سیگرٹ کے کش پہ کش لگا رہا تھا۔ دو خواتین کنٹین پر آئیں ۔ کولڈ ڈرنکس اور چپس لی اور وہیں کھڑے کھڑے کھانے لگیں ۔ ایک خاتون دوسرے سے کہنے لگی “ میڈم غزالہ کو دیکھا ہے کیسے آزاد صاحب کے آگے پیچھے پھرتی ہے ؟ “ دوسری خاتون مسکرا کر بولی “ بھئ وہ آزادصاحب کی اعزازی بیوی جو ہوئی“ دونوں نے ایک زود دار قہقہ لگایا اور وہاں سے چل دیں ۔ اُس خاتون کے یہ الفاظ اور ان کا قہقہ سیدھا میرے دل پر لگا۔

میں ایک نیم سرکاری ادارے میں اکاؤنٹنٹ ہوں ۔ گزشتہ سال انہی دنوں کی بات ہے جب ایک روز دفتر میں کام کر رہا تھا کہ پتہ چلا کہ ملک کے معروف شاعر و ادیب آزاداحمد کو ادارے کے علاقائی دفتر میں ریذیڈنٹ ڈائریکٹر لگا دیا گیا ہے ۔ آزاد احمد اعلی پائے شاعر و ادیب تھے ۔ خاص طور پر ان کے لکھے رومانوی افسانے اور غزلیں لوگوں میں بہت مقبول تھیں ۔ اب وہ ہمارے اس آفس کے باس بن رہے تھے ۔

میری بیوی کو بھی شعر و شاعری کا شوق تھا۔ زمانہ طالب علمی سے ہی وہ بھی غزلیں لکھتی تھی۔ آزاد احمد اُس کے پسندیدہ ادیب تھے وہ اُن کی تمام ہی کتب پڑھ چکی تھی ۔ جب میں نے اپنی بیوی کو بتایا کہ آزاد احمد میرے دفتر میں باس بن کر آ رہے ہیں تو اُس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔

چند دن بعد ہی آزاد احمد اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے دفتر آ پہنچے ۔ دفتر کے سٹاف نے اُن کا پُر تپاک خیرمقدم کیا۔انہیں پھول پیش کئے گئے۔ انہوں نے سٹاف سے مختصر تعارفی مُلاقات کی اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔

آذاد احمد بہت سادہ انسان تھے اُن میں کوئی افسرانہ تکبر نہ تھا۔ وہ سب ملاقاتیوں سے بڑی محبت سے ملتے۔ دفتر کے سٹاف کے لوگوں کو تو اپنی فیملی سمجھتے تھے۔

میری بیوی مجھے مسلسل کہہ رہی تھی کہ وہ آزاد احمد کو ملنا چاہتی ہے۔ اُس نے تجویز پیش کی کہ میں آزاد احمد کو اپنے گھر کھانے پر مدعو کروں ۔ یوں اُس کی اُن سے ملاقات بھی ہو جائے گی اور بطور سٹاف ممبر میری طرف سے اُن کے اعزاز میں کھانا بھی ہو جائے گا۔

مجھے اُس کی یہ تجویز پسند آئی۔ ایک دن میں نے آزاد احمد کو اپنے گھر آنے اور رات کا کھانا ہمارے کھانے کی دعوت دی تو بولے “ بھائی! ایسے ہی بھابھی کو زحمت ہو گی “ میں نے انہیں بتایا کہ میں یہ دعوت اپنی بیوی ہی کی خواہش پر دے رہا ہوں ۔ میں نے انہیں اپنی بیوی کے ادبی ذوق اور اُن کی مداح ہونے کا بتایا تو وہ فورا ہی مان گئے ۔

جس دن آزاد احمد نے ہمارے گھر آنا تھا اُس دن پورے گھر کو غسل دیا گیا ۔ لان کی کٹنگ کی گئ۔ طرح طرح کے مزے دار پکوان تیار کئے گئے۔ میری بیگم بیوٹی پارلر سے تیار ہو کر آئی تو وہ اپنی عمر سے پانچ سال چھوٹی نظر آ رہی تھی۔

آزاد احمد حسب وعدہ مقررہ وقت پر تشریف لے آئے ۔ میری بیوی اپنے پسندیدہ شاعر و ادیب کو اپنے گھر دیکھ کر خوشی سے پھولی نہیں سما رہی تھی۔آزاد احمد بھی میری بیوی کی خوبصورتی سے متاثر نظر آرہے تھے۔ کھانا کھانے کے بعد قہوہ پیتے ہوئے گپ شپ کا دور چلا۔ بیگم نے آزاد صاحب سے کلام سنانے کی فرمائش کی۔ انہوں نے اپنی تازہ غزلیں سنائیں ۔ بیگم نے خوب واہ واہ کی۔ پھر آزاد صاحب کی فرمائش پر میری بیوی نے بھی اپنا کلام سنایا ۔ آذاد صاحب نے بھی کھل کر داد دی۔

اس دوران میں مسلسل بور ہوتا رہا کیونکہ مجھے شعر و شاعری سے سرے سے ہی کوئی دلچسپی نہیں۔ آزاد صاحب واپس جانے کے لئے اُٹھے تو بیگم نے اُن کے ساتھ سیلفی بنوائی اور اُن سے اُن کا فون نمبر مانگ لیا جو انہوں نے جھٹ دے دیا ۔

اُس دن کے بعد میری بیوی اور آزاد احمد کے درمیان براہ راست رابطہ شروع ہو گیا ۔ آزاد صاحب کو جس بھی ادبی تقریب کے لئے بلایا جاتا وہ منتظمین کو کہہ کر میری بیوی کا نام بھی بطور شاعرہ شامل کروا دیتے۔جن اخبارات و جرائد میں آزاد احمد کا کلام شائع ہوتا میری بیگم کا کلام بھی وہیں چھپنے لگا۔

ٹی وی کے ادبی پروگراموں میں بھی دونوں اکٹھے شریک ہوتے۔ آزاد احمد بن۔ بلائے ہی ہمارے گھر آتے اور رات کو دیرتک بیگم کے ساتھ گپ شپ لگاتے البتہ مجھے سونے جانے کی اجازت دے دیتے۔ میری بیوی دفتر میں بھی اُن سے ملنے آنے لگی۔ جب وہ آتی آزاد احمد کے دفتر کا دروازہ بند ہوجاتا اور دروازے پر “ میٹنگ ان پراگرس “ کے الفاظ لکھے نظر آتے ۔

کچھ عرصہ سے آزاد احمد اور میری بیوی ہر جگہ اکٹھے نظر آتے ۔ میری بیوی تو سمجھیں فضاؤں میں اُڑ رہی تھی ۔ بطور شاعر و ادیب قومی سطح پر اُس کی پہچان جو بن رہی تھی اور یہ سب آزاد احمد کی وجہ سے تھا ۔ میری بیوی مجھے کوئی وقت نہ دیتی تھی ۔ گھر کے معاملات کی اسے کچھ پرواہ نہ تھی ۔ ایسے میں میرا پریشان ہونا فطری عمل تھا مگر اسے میری پریشانی سے کوئی غرض ہی نہ تھی ۔

یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ میری بیوی کون ہے ؟ غزالہ۔ ۔۔ جی ہاں غزالہ ہی میری بیوی جسے دو خواتین نے آزاد احمد کی اعزازی بیوی قرار دے دیا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں ؟ ملازمت کو خیر باد کہہ کر بیوی کو آزاد احمد سے آزاد کرواؤں یا بیوی کو ہی آزاد کر دوں ؟؟؟
(تنویر بیتاب)