وہ ایک سیاحتی مقام تھا جہاںسیاحوں کی دلچسپی کے لئے چئیر لفٹس بھی لگائی گئیں تھیں ۔ ویک اینڈ ہونے کی وجہ سے وہاں آج معمول سے زیادہ رش تھا ۔ چیئر لفٹ پر سوار ہونے کے خواہشمند سیاحوں کی ایک لمبی لائن لگی ہوئی تھی ۔ ایک ایک چئیر لفٹ میں دو دو افراد کو بٹھایا جا رہا تھا ۔
میری باری آئی تو میں لپک کر چئیر لفٹ میں سوار ہو گیا ۔ میرے ساتھ ہی ایک اور شخص بھی پھرتی سے میرے برابر آن بیٹھا ۔ میں نے نظر اُٹھا کر اپنے ہم سفر کی طرف دیکھا ۔ اُف ۔۔ اتنا کالا رنگ جیسے تار کول ۔۔ چہرے پر بڑا سا زخم کا نشان ۔۔ گندے پیلے دانت ۔۔ ہونٹ پان کی پیک سے ایسے سُرخ جیسے ابھی ابھی کسی کا خون پی کر آیا ہو۔ بال تیل سے چپڑے ہوئے جن سے بدبو آ رہی تھی ۔
اسے دیکھ میرا تو سارا موڈ ہی غارت ہو گیا ۔ کچھ دیر بعد اُس نے سیگرٹ بھی سلگا لیا جس کا دھواں میرے نتھنوں میں بھی گُھسنے لگا ۔
جب وہ پان کی پیک نیچے تھوکتا تو اس کے کچھ چھینٹے بھی مجھ پر پڑ رہے تھے۔ مجھے شدید کراہت ہو رہی تھی ۔ مجھے ایسا لگتا تھا کہ مجھے الٹی آ جائے گی ۔ مجھے وہ شخص دنیا کا گندا ترین اور بد صورت ترین انسان لگ رہا تھا ۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اُس کو دھکا دے کر لفٹ سے نیچے پھینک دوں ۔
میں نے اپنی توجہ بٹانے کے لئے اپنا منہ دوسری طرف کر کے ادھر کا منظر دیکھنا شروع کر دیا۔ واہ ۔۔ کیا خوبصورت نظارہ تھا ۔ سبزہ ہی سبزہ ۔۔ ان کے پیچھے فلک بوس پہاڑ۔۔پہاڑوں سے بہتا چشمہ ۔۔ یہاں سلفی لینا تو بنتا تھا۔ میں نے اپنی جیب سے اپنا موبائل فون نکالا ۔ کیمرہ آن کیا اور اپنی ویڈیو بنانا شروع کر دی ۔
ویڈیو بناتے ہوئے میں لفٹ سے باہر کی جانب بہت زیادہ جھک گیا تھا۔ اچانک ہی اس بدنما شخص نے مجھے پھرتی سے دبوچ کر اپنی طرف کھینچ لیا ۔ اُف ! میرے خدا میں ایک چٹان سے ٹکراتا ٹکراتا بچا تھا ۔ اگر وہ شخص اتنی پھرتی سے مجھے لفٹ کے اندر کھینچ نہ لیتا تو میں یقینی طور آگے بڑھی ہوئی اس چٹان سے ٹکرا کر لفٹ سے باہر سینکڑوں فٹ گہری کھائیوں میں گر چکا ہوتا۔ میں نے اس شخص کا شکریہ ادا کیا۔
اب جو میں نے اس کی طرف دیکھا تو مجھے اُس کے رنگ میں کوئی کالک نظر نہ آئی ۔۔ اس کے چہرے ہر زخم کا نشان بھی غازہ لگ رہا تھا۔ اس کے پیلے دانت سونے کی طرح چمکتے نظر آرہے تھےاوریاقوتی دکھائی دے رہے تھے ۔
اس کے سر کے بالوں میں لگے تیل کی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی ۔ اس کے سگریٹ کا دھواں مجھے اگر بتی کے دھوئیں جیسا خوشگوار لگ رہا تھا ۔ جب وہ پان کی پیک تھوکتا تو اس پیک مجھے پھوار کی طرح محسوس ہو رہی تھی ۔ اُس وقت وہ مجھے دنیا کا سب سے خوبصورت انسان نظر آ رہا تھا ۔ شائد یہی اصل حسن ہوتا ہے۔
(تنویر بیتاب)