خوشامد آنکھوں پر پٹی باندھ دیتی ہے، بچوں کی کہانی

Posted by

بچوں کو رات کو سنائی جانے والی دلچسپ اصلاحی اور سبق آموز کہانیاں

ایک دفعہ کا ذکر ہے ایک دانا عالم جس کا نام شیوا تھا اور جو گاؤں کے باہر ایک مندر میں رہتا تھا ایک مشہور اور قابل عزت شخص تھا۔ لوگ اس کے پاس اپنی مرادیں لیکر آتے دُعائیں لیتے اور اس کو تحفے تحائف دیتے جن میں کھانے کی اشیا کے علاوہ نقد رقم اور ملبوسات شامل ہوتے۔ تحفے جو اس کی ضرورت سے ذیادہ ہوتے وہ انہیں بازار میں فروخت کر دیتا اور جلد ہی وہ مالدار ہو گیا۔

فطرآ وہ ایک کنجوس شخص تھا اور کسی پر بھروسہ نہ کرتا تھا۔ وہ اپنی تمام جمع پونجی ایک تھیلے میں ڈال کر اپنی بغل کے نیچے چھپاۓ رہتا اور ایک لمحہ بھی تھیلے کو اپنے سے علیحدہ نہ کرتا۔

ایک دن ایک عیار شخص اس سے ملا۔ عالم کی بغل میں تھیلا دیکھ کر عیار شخص کو یقین ہو گیا کہ تھیلے میں قیمتی اشیا ہیں اور تھیلا حاصل کر نے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔

عالم رات کو مندر کے اندر ایک کمرے میں اکیلا سوتا تھا اور مندر کے اندر رات کو داخل ہونے کا کوئی راستہ نہ تھا۔ عیار شخص نے آخر خوشامد کر کے اس کا شاگرد بننے اور اس طرح اس کا اعتماد حاصل کر نے کا فیصلہ کیا۔ وہ عالم کے پاس آکر اسکے پاؤں میں بیٹھ گیا اسکی خوشامد شروع کی اور کہا کہ وہ دنیا سے بیزار ہے اور باقی زندگی آپ کے پاس آپ کے چرنوں میں گزارنے کا خواہشمند ہے۔

اس کو شاگردی میں قبول کر لیا جاوے۔ عالم نے اسے شاگردی میں قبول کر لیا۔ ساتھ ہی یہ شرط رکھی کہ وہ رات کو مندر میں نہیں رہے گا۔ مندر کے دروازے کے سات والے کمرے میں سوۓ گا۔ شام کو باقاعدگی سے اس کی شاگرد بننے کی رسم ادا کی گئی جس میں عیار نے اپنی چکنی چپڑی باتوں سے عالم کی ہر بات ماننے کا وعدہ کیا مندر کی صفائی ستھرائی سمیت سب کام اپنے ذمہ لیے۔

تھیلے کو حاصل کرنے کا کوئی موقع اس کو نہ مل سکا۔ وہ مایوس ہو گیا کہ ایک دن ایک لڑکا مندر میں آیا اور عالم کو اپنے گھر میں ہونے والی ایک مذہبی تقریب میں شمولیت کی دعوت دی۔ عالم نے دعوت قبول کر لی اور عیار شخص کو اپنے ساتھ لے کر گاؤں کی طرف چل پڑا۔ راستے میں دریا کا پاٹ تھا۔ عالم نے اپنی قبا اتاری اور تھیلے کو اس میں لپیٹ کر عیار شخص کے حوالہ کی اور کہا کہ اس کی واپسی تک وہ اس کا خیال رکھے۔

جب عالم کافی دور چلا گیا تو عیار شخص تھیلہ لے کر رفوچکر ہو گیا۔عالم جب واپس لوٹا تو عیار شخص کو وہاں نہ پاکر سخت پریشان ہوا مگر اب سب بے سود تھا۔ عیار شخص موقعہ ملتے ہی فائدہ اٹھا کر جا چکا تھا۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ چکنی چپڑی باتوں سے گریز کرنا چاہیے۔