پاکستان ٹیلی ویژن کے ڈراموں خاص طور پر 1980 سے لیکر 1990 تک دہائی میں بننے والے ڈراموں کو یہ اعزاز حاصل رہا ہے کہ انہیں پاکستان سمیت ساری دُنیا میں ہی انتہائی مقبولیت حاصل رہی ہے خاص طور پر پڑوسی ملک بھارت میں انہیں بہت سراہا گیا اور آج تک ان ڈراموں کے کرداروں کو بھارت میں کاپی کیا جاتا ہے اور بھارت کے اداکاری سیکھانے والے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں ان ڈراموں کو طالبعلموں کو اداکاری سیکھانے کے لیے دیکھایا جاتا ہے۔
پاکستان کے انہیں ڈراموں میں سے ایک ڈرامہ سیریز ان کہی جسے حسینہ معین نے تحریر کیا اور محسن علی اور شعیب منصور نے ڈائیریکٹ کیا اور اس ڈرامہ سیریز میں شہناز شیخ، سلیم ناصر، شکیل، جاوید شیخ، جمشید انصاری، بہروز سبزواری اور قاضی واجد جیسے فنکاروں نے اداکاری کے جوہر دیکھائے اور دیکھنے والے آج بھی اس ڈرامے کو اگر دیکھنے بیٹھیں تو پھر دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔
پچھلے دنوں پی ٹی وی ہوم نے اس ڈرامے کے فنکاروں کو اپنے ایک پروگرام میں مدعو کیا جن میں شہناز شیخ، شکیل اور جاوید شیخ وغیرہ شامل تھے۔ پروگرام میں بات کرتے ہُوئے شکیل صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ اُن کی دلیپ کمار صاحب سے ملاقات ہُوئی تو دلیپ کمار صاحب نے اُن سے بہت گرمجوشی سے ہاتھ ملایا جیسے انہیں پہلے سے جانتے ہوں اور پھر انہیں بتایا کہ انہوں نے ان کا ڈرامہ ان کہی دیکھا ہے اور پھر شکیل صاحب کی اداکاری کی بہت تعریف کی۔ دلیپ کمار صاحب نے انہیں بتایا کہ اُنہوں نے یہ ڈرامہ کیسٹ پر حاصل کیا تھا اور ان کا پلان تھا کے اس کی 13 قسطوں کو 13 دن تک روزانہ اپنی بیگم کیساتھ بیٹھ کر دیکھیں گے مگر پھر جب ڈراما دیکھنا شروع کیا تو انہوں نے ایک ہی رات میں ساری ڈرامہ سیریز دیکھ ڈالی۔
پروگرام سے بات کرتے ہُوئے جاوید شیخ صاحب نے بتایا کے وہ لندن میں ایک دوست کے ساتھ ایک دعوت میں گئے جہاں دلیپ کمار صاحب بھی موجود تھے اور سب ایک لائن بنا کر دلیپ صاحب سے مل رہے تھے۔ جاوید شیخ نے کہا کہ جب اُن کی باری دلیپ کمار صاحب سے ملنے کی آئی تو انہوں نے جاوید شیخ کو گلے لگا لیا اور انہیں بتایا کہ اُنہوں نے جاوید شیخ کا ڈرامہ ان کہی دیکھ رکھا ہے۔
ڈرامہ ان کہی کو نشر ہُوئے 36 سال کا عرصہ گُزر چکا ہے لیکن آج بھی اگر کوئی اس ڈرامے کو دیکھنے بیٹھے تو وہ اس ڈرامے کے خوبصورت کرداروں میں کھو جاتا ہے اور خاص طور پر ثنا شیخ اور شکیل صاحب کی اداکاری اور جاوید شیخ کی بے ساختہ کامیڈی۔ اس ڈرامے میں اگرچہ سب ہی کردار بہت زیادہ خوبصورت تھے لیکن سلیم ناصر نے ماموں کا کردار اتنی خوبصورتی سے ادا کیا کہ وہ دیکھنے والوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہے۔ شہناز شیخ کو اس ڈرامے کی وجہ سے راجکپور صاحب نے اپنی فلم کے لیے کاسٹ کرنا چاہا لیکن اُنہوں نے یہ کہہ کر انکار دیا کہ وہ فلموں میں اداکاری نہیں کرتیں۔
شہناز شیخ نے بہت کم ڈراموں میں ادکاری کی اور اس کی ایک وجہ اُنہوں نے معین اختر صاحب کے شور یس سر نو سر میں انٹرویو دیتے ہُوئے بتائی کے اُن کے ڈراموں میں کام کرنے کی وجہ سے اُن کی شخصیت پر گھٹیا تنقید کی جاتی ہے اور اگر وہ فلم میں کام کر لیتی تو شائد یہ دُنیا اُن کے ساتھ پتہ نہیں کیا کرتی۔ اُنہوں نے خاص طور پر اپنے انٹرویو میں صحافیوں سے گلا کیا کے وہ اُن کے نام سے جھوٹی خبریں پھیلاتے ہیں جن سے اُن کی ذاتی زندگی متاثر ہوتی ہے۔ فنکار حساس ہوتا ہے اور ہمارا معاشرہ اُس کی قدر نہیں کرتا وگرنہ عین ممکن تھا کہ آج ہمارے پاس شہناز شیخ جیسی فنکارہ کی اداکاری کے مزید جوہر بھی موجود ہوتے۔
Featured Image Preview Credit: Bollywood Hungama, CC BY 3.0, via Wikimedia Commons