دو شادیاں کرنے کا سرکاری حُکم نامہ

Posted by

افریقی ملک اریٹیریا کی حکومت نے اپنے ایک حکم کے ذرئعیےوہاں کے مردوں کو بیک وقت دو شادیاں کرنے کا پابند کر دیا ہے، ذرائع ابلاغ کے مُطابق اریٹیریا کی حکومت کی طرف سے اعلان کیا گیا ہے کہ وہاں کا رہنے والا ہر مرد کم از کم دو شادیاں کرے گا اور جو مرد پہلے سے شادی شُدہ ہیں وہ بھی ایک اور شادی کریں، اور جو مرد اس پابندی کی خلاف ورزی کرے گا اُسے عمر قید با مشقت کی سزا دی جائیگی۔

اخبارات میں شائع ہونے والی یہ خبر ہمارے غیر شادی شُدہ نوجوانوں میں بہت رشک کی نگاہ سے دیکھی گئی ۔ کئی ایک جذباتی قسم کے نوجوانوں نے تو باقاعدہ اریٹیریا جانے پر بھی غور شروع کر دیا، وہ یہ معلوم کرتے پھر رہے ہیں کے اریٹیریا واقع کہاں ہے؟ وہاں جانے پر کتنا خرچ آئے گا؟ کیا وہاں کی شہریت اُنہیں بھی مل سکتی ہے؟۔

غیر شادی شُدہ افراد تو اس خبر کو اور ہی نظر سے دیکھ رہے ہیں ، وہ دوسری شادی کی پابندی کو ایک کالے مُلک کے کالے مردوں کے لیے "کالا قانون” ہی قرار دے رہے ہیں۔ شادی شدہ افراد کو تو اریٹیریا کی حکومت کے جاری کردہ اس فرمان کے بعد وہاں کے مردوں سے ہمدردی ہورہی ہے اور ان پر ترس آ رہا ہے ہائے بیچارے اریٹیریا کے مرد جنہیں اب حکومتی پابندی کی وجہ سے دو شادیاں کرنا پڑیں گی۔ مردوں کے دل سے شادی کا شوق ختم کرنے کے لیے ایک ہی شادی بہت کافی ہوتی ہے۔

شادی چیونگم کی طرح ہوتی ہے، پہلے میٹھی پھر پھیکی اور آخر میں تو چپک ہی جاتی ہے۔ اگر آپ اس بات کو کاروباری زبان میں سمجھنا چاہیں تو عرض ہے کہ کاروبار میں پہلے "چٹی(خسارہ) ہوتی ہے پھر ہٹی (کاروبار چلنا اور نفع نہ ہونا) اور آخر میں "کھٹی” یعنی منافع ہوتا ہےاورشادی میں اس کے بلکل اُلٹ ہوتا ہے، شادی میں پہلی کھٹی یعنی منافع ہوتا ہے اور آخر میں چٹی رہ جاتی ہے۔

میں یہ بات پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کسی مرد کی زندگی کی تمام تر خوشیاں اور آزادیاں ختم کرنے کے لیے ایک ہی بیوی کافی ہوتی ہے۔ شادی کے فوراً بعد بیوی اپنے شوہر سے انتہائی محبت اور پیار اور ادب و احترام سے پیش آتی ہے اور شوہر صاحب یہ میٹھا زہر بڑے شوق سے قبول کرتے چلے جاتے ہیں۔ بیوی آہستہ آہستہ شوہر کے دل و دماغ پر قبضہ کر لیتی ہے اور جب اُسے پوری طرح یقین ہوجاتا ہے کہ اُس کا شکار پوری طرح سے اُس کی ذہنی غلامی اختیار کر چکا ہےتو پھر اُسے اُس کے اپنوں اور خیر خواہوں سے دور کرنے کا عمل بڑی ہی مہارت سے سر انجام دیا جاتا ہے۔ جب ایک شوہر کے تمام رابطے ختم ہوجاتے ہیں تو پھر بیوی کے سامنے اُس کی حیثیت مکٹری کے جالے میں پھنسے ہُوئے کیڑے مکوڑے سے زیادہ نہیں ہوتی ہے۔پھر باقی تمام زندگی اُسے بیوی کے اشاروں پر بندر کی طرح ناچ کر ہی گُزارنا ہوتی ہے۔ ان حالات سے گھبرا کر بعض شوہر حضرات اپنے مسائل کا حل "علاج بالمثل” کی طرز پر دوسری شادی سے کرنے کی کوشیش کرتے ہیں ، مگر اس نادانی اور بیوقوفی سے اُن کے مسائل اور پریشانیاں مزید بڑھ جاتی ہیں اور "یک نہ شُد دو شُد” کی مثال نظر آتے ہیں۔

میرا تو خیال ہے کہ اریٹیریا کے بہت سے مرد دوسری شادی کرنے کے قانون کی خلاف ورزی کرتے ہُوئے عمر قید کو ترجییح دیں گے ۔ جیل میں عمر قید کی زندگی گُزارنا دو بیویوں کے ساتھ زندگی گُزارنے سے تو کم تکلیف دہ ہی ہو گا۔ جیل میں کم از کم شوہر بیوی کی چیخ چیخ سے محفوظ رہے گاکیونکہ دیوار پر بیٹھے ہُوئے کائیں کائیں کرتے کوئے اور گھر میں بولتی ہُوئی بیوی کو چُپ کروانا نا ممکن ہوتا ہے اور پھر یہ کہ عمر قید تو بالآخر ختم ہو ہی جائے گی اور جیل سے رہائی عمل میں آ ہی جائے گی مگر دُوسری شادی کرنے کی صورت میں تو اُنہیں تا حیات قید میں رہنا ہوگا۔

ایک شادی شدہ جوڑا اپنی شادی کی دسویں سالگرہ منا رہا تھا، کسی مہمان نے بیوی سے پُوچھا کہ آج آپ کی شادی کی کتنویں سالگرہ ہے تو اُس نے جواب دیا کہ "دسویں” اور جب یہی سوال شوہر سے کیا گیا تو اُس نے جواب دیا "بیسویں”، پُوچھا گیا کہ آپ کی بیوی تو "دسویں” بتا رہی ہےتو اُس کا جواب تھا بھائی وہ بھی ٹھیک کہہ رہی ہے اور میں بھی آپ کو درست ہی بتا رہا ہوں کیونکہ قید میں دن اور رات دو شمار کیے جاتے ہیں۔

مُجھے تو اریٹیریا کے مردوں سے ہمدردی ہے کہ حکومت نے دو شادیوں کا قانون نافذ کر کے اُن پر ظلم کیا ہے، اب وہ بیچارے یا تو دو بیویوں کو بھگتیں اور یا پھر حکومت کی طرف سے دی گئی عمر قید کی سزا کو۔
تنویر سلیم بیتاب کے قلم سے ایک تحریر

Image Preview Curtsy: MamasamalaMinangkabau wedding 2CC BY-SA 3.0