بلاول بھٹو زرداری نے پچھلے دنوں تقریر کرتے ہُوئے ٹانگیں کانپ جاتی ہیں کو جب کانپیں ٹانگ جاتی ہیں کہا تو سوشل میڈیا پر اس بات کو بہت زیادہ مذاق کا نشانہ بنایا گیا اور زبان کے پھسل جانے کی اس غلطی کو جو تقریباً ہر آدمی سے ہی ہو جاتی ہے نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس آرٹیکل میں ہم جانیں گے کہ ماہرین نفسیات زبان کے پھسل جانے کی کیا وجوہات بتاتے ہیں اور اسکے پیچھے کونسے عوامل ہیں جو لفظ کے تلفظ کو خراب کر دیتے ہیں۔
ماہرین نفیسات کا کہنا ہے کہ زبان کا پھسل جانا بولنے کی ایک غلطی ہے جس میں الفاظ کا تلفظ ٹھیک سے ادا نہیں ہوتا یا الفاظ بولتے ہُوئے غیر ارادی طور پر پھنس جاتے ہیں اور سمجھنے والے کو پتہ نہیں چلتا کے بولنے والا کیا کہہ رہا ہے۔ نفسیاتی تجزیہ کرنے کے ایک بہت بڑے ماہر سیگمینٹ فریڈ (1939 – 1856) کا ماننا ہے کہ زبان کا پھسلنا اُن سچائیوں کی وجہ سے ہوتا ہے جو ہمارے لاشعور میں موجود ہوتی ہیں اور عام گفتگو کرتے ہُوئے ہماری زبان سے بے اختیار ادا ہو جاتی ہیں اور ماہرین نفسیات لاشعور میں چھپی ان سچائیوں کو بعض اوقات دوسرے فرد کی خواہش نہ ہونے پر بھی اپنے طریقوں سے ادا کروا لیتے ہیں جیسے جرم کرنے والوں سے انٹرویو کے دوران سچ اگلوانا وغیرہ۔
سیگمینت فریڈ کا مفروضہ ہے کہ جب لوگ کسی بات کو کہنا نہ چاہتے ہوں مگر ان کی زبان سے وہ لفظ ادا ہو جائے تو یہ اُس شخص کے دبائے گئے وہ خیالات ہیں جو وہ بتانا نہیں چاہ رہا ہوتا اور زبان کے اس طریقے سے پھسل جانے کو Freudian Slip یا Parapraxes کہا جاتا ہے۔
سیگمینٹ فریڈ کا یہ تجزیہ بولنے کی چند غلطیوں کی ہی نشاندہی کرتا ہے اور آج نفیسات دان اس تجزیے کو پرانا تجزیہ گردانتے ہیں۔ پروفیسر گرے ڈیل جو لسانیات اور نفیسات کے ماہر ہیں کی جدید ریسرچ کے مطابق زبان کا پھسلنا ظاہر کرتا ہے کے بولنے والا جس زبان میں گفتگو کر رہا ہے وہ اس کا کتنا ماہر ہے۔ ماہرین کے مطابق زبان کے پھسلنے کی 3 اقسام ہیں جس میں آواز، مورفیم، اور الفاظ کی غلطی وغیرہ شامل ہیں۔
آواز کی غلطی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب الفاظ کی آواز ایک دوسرے میں مکس ہو جائے جیسے ٹانگیں کانپ رہی ہیں کو کانپیں ٹانگ رہی ہیں کہنا اور آواز کی اس غلطی کو Spoonerism بھی کہا جاتا ہے۔ Morpheme error اُس وقت پیدا ہوتا ہے جب بولنے والا کوئی لفظ بولنا چاہتا ہو لیکن اُس کے مُنہ سے اس لفظ کے متبادل کوئی اور لفظ نکل جائے جیسے کوئی کہنا چاہ رہا ہو کہ میں کل لاہور جاؤں گا اور وہ یہ کہہ دے کہ میں کل لاہور گیا تھا۔ اسی طرح word error میں لفظ کسی دُوسرے لفظ سے تبدیل ہو جاتا ہے جیسے کوئی کہنا چاہ رہا ہو کہ میں نے کتاب بستے میں رکھ دی ہے اور وہ غلطی سے یہ کہہ دے کہ میں نے بستہ کتاب میں رکھ دیا ہے۔
زبان کی ان غلطیوں کی ایک اور قسم بھی ہے جسے Anticipation Error کہتے ہیں اور اس غلطی میں حروف تہجی کا کوئی لفظ غلطی سے اصل لفظ میں شامل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کوئی کہنا چاہ رہا ہے Reading list لیکن غلطی سے یہ کہہ دے leading list. یہاں یہ بات اچھے اخلاق کے لیے ضروری یاد رکھنی چاہیے کہ زبان کسی کی بھی پھسل سکتی ہے اور اچھے اخلاق کے لیے ضروری ہے کہ اس بات کو اتنا نہ اُچھالا جائے کے دُوسرا شخص اسے اپنی توہین محسوس کرے اور بات ہنسی مذاق سے آگے نہ جائے۔
Featured Image Preview Credit: Peabody Awards, CC BY 2.0, and
So Monggo, CC BY-SA 4.0, via Wikimedia Commons