سٹیتھوسکوپ میڈیکل سائنس کا ایک ایسا آلہ ہے جسے ڈاکٹر حضرات اپنے گلے میں ہی لٹکا کر رکھتے ہیں اور اس کی مدد سے مریض کے سینے کی دھڑکن اور کمر میں دل کی دھڑکن وغیرہ سُننے کے لیے استعمال کرتے ہیں تاکہ مرض کی تشخیص کی جا سکے اور جب یہ آلہ ایجاد نہیں ہُوا تھا تب ڈاکٹر اپنے کان کو مریض کے سینے وغیرہ پر لگا کر دھڑکن سُنا کرتے تھے۔
صدا شناسی کے اس آلے کی ایجاد 1816 میں فرانس کے شہر پیرس کے ایک ہسپتال نیکر اینفینٹ میلاڈس ہسپتال میں ڈاکٹر رینی لینیک نے کی اور پہلا سٹیتھوسکوپ بانسری کی شکل میں لکڑی کی ایک ٹیوب سے بنایا گیا۔

ڈاکٹر لینیک نے اس آلے کی ایجاد اس لیے کی کیونکہ وہ خواتین کے سینے پر اپنا کان لگا کر اُن کی دھڑکن سُننے کو پسند نہیں کرتا تھا، اس کام کے لیے ڈاکٹر نے اندازہ لگایا کے اگر کاغذ کو رول کرکے ایک طرف سے مریض کے سینے کیساتھ لگایا جائے اور دُوسری طرف کان لگایا جائے تو جہاں مریض کو چُھونے سے بچا جا سکتا ہے وہاں دل کی دھڑکن کی آواز بھی ایمپلیفائی یعنی اونچی سُنائی دیتی ہے۔
رینی لینیک نے اپنے اس آلے کو سٹیتھو سکوپ کا نام دیا جو اُس وقت یورپ میں انتہائی مقبول ہُوئی اور ہر ہسپتال میں استعمال ہونے لگا۔

ڈاکٹر رینی کے اس آلے سے دل کی دھڑکن کو سُننے کے لیے صرف ایک کان استعمال کیا جاتا تھا پھر 1852 میں جارج فلیپ نے اس آلے کے ڈیزائن کو مزید بہتر بنایا تاکہ دل کی دھڑکن دونوں کانوں میں سُنائی دے اور ساتھ ہی اپنے اس ڈیزائن کو کمرشل سطح پر بنانا شروع کیا جو پُوری دُنیا میں انتہائی مقبول ہُوا۔

جارج فیلپ کا ڈیزائن کیا گیا سٹیتھو سکوپ آج بھی اسی شکل میں استعمال ہو رہا ہے اور اس آلے کی ایجاد نے باپردہ خواتین کی ایک بڑی مشکل حل کر دی کیونکہ ڈاکٹر اس آلے کی مدد سے اُنہیں چھوئے بغیر چیک کر سکتے ہیں۔
آج کی ماڈرن دُنیا میں کئی طرح کے سٹیتھو سکوپ استعمال کیے جارہے ہیں جن میں Acoustic, Electronic, Recording, Fetal, Doppler شامل ہیں اور 3 ڈی پرنٹرز کے ذرئیعے آپ اس آلے کو گھر بیٹھے خُود بھی پرنٹ کر سکتے ہیں۔