شادی دن کو ہونی چاہیے یا رات کو سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں

Posted by

شادی ایک ایسا رشتہ ہے جو انسان کے باقی تمام رشتوں سے پہلے پیدا ہُوا اور آدم علیہ السلام اور اماں حوا کے درمیان اسے پیدا کیا گیا اوراولاد آدم میں اس رشتے کو قائم کرنے کے لیے رب کائنات نے انتہائی آسان قانون دیا کہ مرد اور عورت آپس میں دو گواہوں کی موجودگی میں کسی بھی حق مہر پر ایجاب و قبول کر لیں تو وہ میاں بیوی بن جاتے ہیں۔

آپ نے کبھی سوچا وہ کون سے عوامل ہیں جو مُحبت کے اس رشتے کو انتہائی مہنگا اور مُشکل رشتہ بنا دیتے ہیں کہ ہمارے مُلک میں غریب کے لیے بیٹی کی شادی کرنا یا بیٹے کی شادی کرنا دُنیا کا سب سے مُشکل کام بن جاتا ہے؟۔

اگر آپ سوچیں گے تو فوراً ہی نتیجے پر پہنچ جائیں گے اور آپ کو جہیز، زیورات، بارات کے کھانے، پُر لذت ولیمے کی دعوتیں، مہنگے لباس، برقی قمقمے، آتش بازی کیساتھ اور بہت کُچھ نظر آئے گا مگر اس آرٹیکل میں ہم ان چیزوں کی بجائے صرف رات کو ہونے والی شادی کے نقصانات کا ذکر کریں گے۔

ویسے تو شادی کے لیے کوئی بھی خاص وقت مقرر نہیں یہ دن اور رات کے کسی بھی وقت کی جاسکتی ہے لیکن برصغیر پاک وہند میں کُچھ سال پہلے اسےصرف دن کے وقت سرانجام دیا جاتا تھا۔

پاکستان میں رات کی شادی کا رواج زیادہ پُرانا نہیں ہے اور دیہاتوں میں تو ابھی بھی دن کے اوقات میں شادی سرانجام دی جاتی ہے لیکن شہروں میں عام طور پر شادی کے لیے رات کا وقت منتخب کیا جاتا ہے اور دن کے اوقات میں چیدہ چیدہ شادیاں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں اور شہروں میں دن کو ہونے والی ان شادیوں کے پیچھے عام طور پر گھر کے سخت مزاج والے وہ سربراہ ہوتے ہیں جن کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اور کسی کو اُن کے فیصلے پر چُوں چراں کی اجازت نہیں ہوتی۔

شادی کا وقت مقرر کرتے وقت آپ نے دیکھا ہوگا کہ اکثر فیملی کے سمجھدار سربراہ بزرگ دن کا وقت تجویز کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ دن کے وقت میں شادی کرنے کے بہت سے فائدے ہیں، دن کہ وقت میں بیش قیمت بجلی اور لائٹوں کے اخراجات بچتے ہیں، دن کے اوقات میں چوری، راہزنی اور ڈاکے کا خطرہ کم ہوتا ہے، دن کے اوقات میں برات اور ولیمے کی دعوت پر اگر مہمان تھوڑا لیٹ بھی ہوجائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ حکومت نے رات کو مقررہ وقت پر شادی حال بند کرنے کا حُکم دیا ہُوا ہے، دن کے اوقات کی شادی میں نیند غالب نہیں آتی اور بندہ تھکاؤٹ سے بچا رہتا ہے وغیرہ وغیرہ، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دن کے اوقات میں کیے جانے والے کام میں برکت ہوتی ہے لیکن نوجوان نسل ان پہلوؤں پر نہیں سوچتی۔

ہمارے نوجوان چاہتے ہیں کہ شادی رات کے وقت ہو کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ رات کو برقی قمقموں کی روشنی میں اُنکے زرق برک لباس زیادہ فینسی نظر آئیں گے اُنہیں لگتا ہے کہ رات کو اُن کا میک اپ زیادہ خوبصورت لگتا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ رات کو وہ زیادہ انجوائے کر سکتے ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ رات کے وقت میں کام کرنے والے کاروباری افراد اور جاب کرنے والے افراد بھی آسانی کیساتھ شادی میں اپنے کام سے فارغ ہوکر شمولیت اختیار کر سکتے ہیں اور اُنکا مزید کہنا ہے کہ شادی عام طور پر ایک دفعہ ہی ہوتی ہے اور شادی کی رونق چونکہ نوجوان ہیں اس لیے اسے نوجوانوں کے مقرر کردہ وقت پر ہی انجام پانا چاہیے۔

نوجوانوں کے رات کی شادی کے متعلق یہ دلائل جہاں انتہائی کمزور ہیں وہاں عقل اور دانائی سے بلکل خالی ہیں کیونکہ وہ سوچتے نہیں ہیں نوجوان یہ نہیں سوچتے کہ رات کے وقت شادی پر اُٹھنے والا خرچہ دن کی شادی سے بہت زیادہ ہوتا ہے اورگھر کا سربراہ اگر نوجوانوں کے آگے اپنا سر تسلیم خم کرلے تو اُس کی جیب پر یہ خرچہ بہت بھاری پڑتا ہے اور اُسکے لیے شادی کی رسم ایک مُشکل فریضہ بن جاتا ہے۔

شادی ہلے غلے کا نام نہیں ہے یہ ایک انتہائی سنجیدہ اور پاکیزہ رسم ہے جسے اگر سادگی سے دن کے اوقات میں سرانجام دے دیا جائے تو اس سے بیشمار لوگوں کا بھلا ہوگا، بجلی بچے گی، رات کے وقت ہونے والے دیگر فضول اخراجات بچیں گے اور یہ فریضہ گھروں کے اُن سربراہوں کے لیے آسان ہوجائے گا جن کی عُمر بھر کی کمائی بیٹی کی شادی پر لگ جاتی ہے یا جن کا شادی کروانے کے بعد بال بال قرض میں جکڑا جاتا ہے۔

آج کا نوجوان اگر ان پہلوؤں پر سوچے تو یقین جانیں کہ وہ کبھی بھی شادی کے لیے ترسے نہ اور اُسکی شادی 30 سے چالیس سال کی بجائے 18 سے 20 سال کی عُمر میں ہوجائے اور وہ  جہاں اس رشتے کی لذت سے اپنی صحیح عُمر میں مستفید ہو وہاں ایسی شادیوں سے کسی پر معاشی بوجھ نہ پڑے۔