شخصیت پر ستی کا مرض ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وجہ

Posted by

شخصیت پرستی کا مرض نہ جانے کب اور کیسے شروع ہوا ہوگا مگر اب یہ مرض ہمارے معاشرے میں پُوری شدت کے ساتھ ہر کسی کو اپنی لپیٹ میں لیے ہُوئے ہے، جمہوریت کے دعوے دار اور علم بردار ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی یہ مرض پوری طاقت کے ساتھ موجود ہے۔

اگر مُسلم لیگ نون میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے گرد گھومتی ہے تو پاکستان پیپلز پارٹی آج تک بھٹو کی شخصیت پرستی سے خود کی آزادی نہیں کر سکی جس کا واضح ثبوت پیپلز پارٹی میں بہت سے قد آور اور تجربہ کار اعلی تعلیم یافتہ اور میدان سیاست میں ایک لمبا عرصہ گزارنے والے رہنماؤں کی موجودگی میں پارٹی کی قیادت ایک نو آموز نوجوان بلاول بھٹو زرداری کے پاس ہونا ہے جو سیاست کے میدان میں طفل مکتب ہی ہیں۔

اسی طرح پاکستان تحریک انصاف نے پارٹی چیئرمین اور وزیر اعظم عمران خان کو ہی اپنا مرکز مان رکھا ہے وہ جو بھی فرمان جاری فرما دیں تمام پارٹی کارکنان اُن کے کہے پر عمل کرنا شروع کر دیتے ہیں حتی کہ اگر وہ یوٹرن بھی لیجائیں تو پُوری پارٹی بھیڑوں کے غلے کی طرح ان کے پیچھے یوٹرن لے جاتی ہے۔

ایسی ہی صورتحال ایم ایم اے ، جماعت اسلامی ، ایم کیو ایم اور دیگر پارٹیز میں بھی پائی جاتی ہے اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی جماعت سے وابستگی نظریاتی بنیادوں کی بجائے شخصیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

عام انتخابات میں ووٹر کا طرز عمل بھی شخصیت پرستی کا غماز ہوتا ہے وہ ووٹ ڈالتے وقت مقامی نمائندے کے کردار کو دیکھنے کی بجائے پارٹی کے سربراہ کی محبت میں ووٹ ڈالتا ہے اور پارٹی منشور اور نظریات سے اُسے بلکل آگاہی نہیں ہوتی اور اُس کے پیش نظر محض اور محض پارٹی لیڈر کی شخصیت ہوتی ہے جس کے سحر میں ووٹر گرفتار ہوتا ہے۔

مذہبی جماعتوں میں بھی شخصیت پرستی عام ہے اور ان جماعتوں سے وابستہ افراد بھی اپنی جماعتوں کے رہنماؤں کے فرمان کو ہی حتمی سمجھتے ہیں اور فرمان پر غور کیے بغیر بلا چوں چرا عمل کرتے ہیں۔

شخصیت پرستی کے اس مرض کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہمارے ہاں جعلی پیروں کی شان ہے جو لوگوں کی شخصیت پرستی کی عادت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور نہ صرف معصوم لوگوں کو مالی نقصان پہنچاتے ہیں بلکہ ان سے غیر شرعی حرکات تک کرواتے ہیں۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ شاید تعلیم کے فروغ سے شخصیت پرستی کا یہ مرض ختم ہوسکتا ہےمگر میں اس سوچ سے متفق نہیں ہوں کیونکہ میں نے بہت اعلی تعلیم یافتہ افراد کو بھی شخصیت پرستی کے اس مرض میں بُری طرح مبتلا دیکھا ہے اور ان لوگوں میں تو یہ مرض اتنا شدید ہوتا ہے کہ وہ کوئی بھی عقلی اور علمی دلیل بھی ماننے پر تیار نہیں ہوتے۔

میرا تو خیال ہے کہ ہمارا سب سے بڑا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم لوگ بحثیت قوم شخصیت پرست ہیں اور شخصیت پرستی بُت پرستی سے بھی زیادہ خطرناک عمل ہے کیونکہ پتھر کا بے جان بت نہ تو کُچھ محسوس کرتا ہے اور نہ ہی بولتا ہے مگر جب جیتے جاگتے سیاسی، مذہبی اور سماجی رہنماؤں کی شخصیت پرستی کی جاتی ہے تو وہ لوگ اپنے آپ کو دیوتا اوتار اور اس قسم کی کوئی چیز سمجھنے لگتے ہیں۔

ایسے لوگوں کے اندر غرور تکبر کا مادہ پوری شدت کے ساتھ موجود ہوتا ہے جو نہ صرف خودان کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے زہر قاتل بن جاتا ہے۔

کسی بھی طرح کے معاشرتی اور جمہوری ترقی اور مذہبی رواداری ہمیں اس وقت نصیب ہوگی جب ہم شخصیت پرستی کے مرض سے نجات حاصل کریں گے مگر یہ عمل کب اور کیسے ہوگا مُجھے معلوم نہیں لیکن اگر آپ کے پاس شخصیت پرستی کا کوئی علاج ہے تو ہمیں بھی بتائیے گا۔
(تنویر بیتاب)