شہزادی ڈیانا کوبچانے کی کوشش کرنے والے فائر فائٹر نے زبان کھول دی اور شہزادی کے آخری الفاظ بتا دئیے

Posted by

شہزادی ڈیانا کو ہم سے بچھڑے 22 سال گُزر گئے لیکن شہزادی کی انسان دوست شخصیت ہمارے دلوں میں آج بھی زندہ ہے اور جب بھی کبھی شہزادی ڈیانا کے حادثے کا ذکر میڈیا پر کیا جاتا ہے ہمارے دلوں میں شہزادی کے المناک کار حادثے کی یاد پھر سے تازہ ہوجاتی ہے۔

File:Lady Diana, ritratto di Giuseppe Antonio Lomuscio.jpg
Giuseppe Antonio Lomuscio [CC BY-SA 4.0], via Wikimedia Commons
پرنسز ڈیانا کی کار 31 اگست 1997 میں پونٹ ڈی الما ٹنل فرانس میں اُس وقت حادثے کا شکار ہُوئی تھی جب اُن کا ڈرائیورہنری پال پاپارازی فوٹو گرافرز سے بچنے کے لیے گاڑی کو تیز رفتاری سے چلا رہا تھا۔ اُس وقت گاڑی میں شہزادی کے ساتھ اُن کے دوست ڈوڈی الفائیڈ اور باڈی گارڈ ٹریور جانز بھی موجود تھے۔

Tunnel where Princess Diana was killed, Paris - Alma Tunnel - Voie Georges Pompidou

حادثے پر فوری طور پر پہنچنے والے فائر فائٹر زیویر گورمیلن نے حال ہی میں ڈیلی میل کو اپنا پہلا انٹرویو دیا اور بتایا کے وہ پہلے شخص تھے جو پونٹ ڈی الما ٹنل میں حادثے کے مقام پر پہنچے، وہ ملر فائر سٹیشن پر ڈیوٹی دے رہے تھے جو حادثے کی جگہ کے بہت قریب تھا۔ میلر نے بتایا جب وہ حادثے کی جگہ پر پہنچے تو اُنہوں نے دیکھا ایک کار بُری طرح تباہ ہوچُکی تھی اوراُن کے لیے یہ حادثہ دُوسرے حادثوں کی طرح تھا جس میں ڈرائیور تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتا ہے اور ڈرنک ہے۔

گورمیلن نے بتایا کہ وہ جب وہاں پہنچے تو گاڑی میں تین مرد اور ایک خاتون تھی، کار کا ڈرائیور ہنری پال جاں بحق ہو چُکا تھا اور وہ اُس کے لیے کُچھ نہیں کر سکتے تھے اور خاتون کے ساتھ پیچھے بیٹھا شخص (ڈوڈی الفائیڈ) بہت بُری حالت میں تھا اور جب اُسے گاڑی سے باہر نکالا گیا تو پیرا میڈیک نے اُسے جاں بحق قرار دے دیا ، گاڑی کے آگے والی سیٹ پر بیٹھا شخص (باڈی گارڈ ٹریور جانز) اپنے حواس میں نہیں تھا وہ پھنسا ہُوا تھا اورمگراُسکی حالت خطرناک نہیں تھی اُس کا صرف چہرہ زخمی تھا اور وہ چلا رہا تھا "Where is She Where is She” تب ریسکیو ٹیم نے اُسے پُرسکون رہنے کی ہدایت کی اور اُسے کہا کے وہ بولے نہ۔

گور میلن نے بتایا کہ وہ بلکل نہیں جانتا تھا کہ گاڑی کے پیچھے فلور پر لیٹی ہُوئی خاتون کون تھی وہ حرکت کر رہی تھی اور اپنے حواس میں نہیں تھی جس سے اُسے پتہ چلا کے وہ زندہ ہے، گورمیلن کا کہنا تھا کہ وہ دیکھ سکتا تھا کے شہزادی کے دائیں کاندھے پر تھوڑی چوٹ آئی تھی اس کے علاوہ اُسے شہزادی کے اور کوئی چوٹ یا زخم دیکھائی نہیں دیا۔

شہزادی ڈیانا نے جب مُجھے یعنی ایک فائر فائٹر کو گاڑی کے اندر دیکھتے ہُوئے دیکھا تو وہ بولی "My God, What Happened” اُس وقت کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ شہزادی کے آخری الفاظ ہیں جو وہ ادا کر رہی ہے میں نے شہزادی کا کاندھا پکڑا اور اُسے پُرسکون رہنے کی ہدایت کی اور اُسے بتایا کہ میں اُس کی مدد کرنے کے لیے پہنچا ہوں پھر میں نے شہزادی کو گاڑی سے نکالا اور شہزادی کو آکسیجن لگائی مگر کُچھ ہی دیر میں شہزادی کی سانس چلنا بند ہو گئی تب مُجھے احساس ہُوا کہ شہزادی کو ہارٹ اٹیک ہو رہا ہے میں نے فوراً شہزادی کے دل کو ہاتھوں سے پمپ کیا جس پر تھوڑی دیر بعد شہزادی کی سانس بحال ہوگئی جس پر مُجھے لگا کہ یہ اب ٹھیک ہیں پھر جب شہزدی کو ایمبولینس میں ڈالا گیا تو ایک پیرامیڈیک نے شہزادی کا نام پُکارا جس پر مُجھے پتہ چلا کے یہ پرنسز آف ویلز شہزادی ڈیانا ہیں، اور بعد میں جب شہزادی کے انتقال کی خبر ہسپتال سے مُجھے ملی تو میں خوفزدہ ہوگیا۔

File:112407-Harrods-DiannaDodiMemorial2.jpg
Bobak Ha’Eri [CC BY-SA 3.0], via Wikimedia Commons
آفیشل رپورٹ کے مُطابق شہزادی کو اندرونی طور پر گہری چوٹیں آئی تھیں اور دل کے قریب خون لیجانے والی ایک نالی سے خون بہنے کے باعث شہزادی کی زندگی کو بچایا نہ جا سکا۔

گورمیلن نے مزید بتایا کہ وہ جانتے تھے کہ شہزادی کو اندرونی چوٹیں آئی ہیں مگر وہ سمجھتے تھے کہ وہ خیریت سے ہیں اور اُن کی جان کو خطرہ نہیں ہے مگر شہزادی کے انتقال کی خبر سے اُنہیں شدید حیرت اور صدمہ ہُوا اور اُس رات کی یاد ہمیشہ کے لیے اُن کے دماغ پر نقش کر گئی۔

File:Ch Muhammad Iqbal MPA PP-98.jpg

اُس رات کی یاد گورمیلن کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کے لیے شہزادی کے ہر چاہنے والے کے دماغ پر نقش ہے اور شہزادی کے سب چاہنے والے یہی سوچتے ہیں کہ کاش شہزادی کو بچا لیا جاتا شائد اُنہیں ٹھیک علاج مہیا نہیں کیا گیا شائد اُنہیں وقت پر ہسپتال نہیں پہنچایا گیا شائد شائد شائد ، مگر ہم سب جانتے ہیں کہ دُنیا میں آنے والے ہر فرد کو چاہے وہ کوئی عام آدمی ہو یا خاص ایک دن دُنیا سے جانا ہے اور اچھے کام کرنے والوں کی یادیں دُنیا میں رہ جاتی ہیں جیسے شہزادی کی یاد آج بھی ہمارے دل میں زندہ ہے۔