صرف 2 مہینے میں پاکستان کا بیرونی قرض 3 ہزار 7 سو 80 ارب روپئے بڑھ گیا

Posted by

ٹرین کی پٹری پر مسافروں سے بھری بس پھنسی ہوئی تھی اور دوسری طرف سے تیز رفتار ٹرین آ رہی تھی تمام مسافر خوفزدہ بیٹھے تھے کیونکہ بس کے دروازے لاک تھے اور بس میں موجود 2 ڈرائیورز حضرات میں لڑائی ہو رہی تھی، ایک کہہ رہا تھا بس میں چلاؤں گا اور دُوسرا کہہ رہا تھا بس میں چلاؤں گا۔ دونوں میں ہونے والی اس لڑائی سے پٹری پر آنے والی ٹرین سر پر پہنچ گئی اتنے میں ایک ڈرائیور بس چلانے کے لیے سیٹ پر بیٹھا لیکن وقت ہاتھ سے نکل چکا تھا چنانچہ آگے کیا ہُوا یہ آپ سمجھ ہی سکتے ہیں۔

دوستو پاکستان اس وقت بلکل پٹری پر پھنسی بس کی طرح ہے جس کی ڈرائیوینگ سیٹ پر عمران خان بیٹھے تھے مگر میاں شہباز شریف اور زرداری صاحب نے کہا کہ بس وہ چائیں گے اور دونوں کی اس لڑائی میں عوام ٹرین کے نیچے کچلی گئی۔ کیسے کچلی گئی یہ بھی بتاتا ہوں۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں نے جس دن تحریک عدم اعتماد پیش کی اُس دن ڈالر 182 روپئے کا تھا جو شہباز شریف کی ملک میں حکومت بننے کے 2 مہینے بعد 209 سے 2010 روپئے تک بازار میں فروخت ہو رہا ہے۔

میاں شہباز شریف کی حکومت آنے کے بعد جس وقت ڈی جی آئی ایس پی آر نے بیان دیا کے ان کی حکومت آنے سے ڈالر اور معیشت مستحکم ہو گی تو عوام پاکستان نے سُکھ کا سانس لیا لیکن پاکستان کے اتنے بڑے ادارے کی یہ بات ٹھیک ثابت نہ ہوئی اور روپیہ روز بروز گرنا شروع ہوگیا۔

تیز رفتار ٹرین نے بس کو کچل دیا کیونکہ میاں شہباز شریف اور زرداری صاحبان کے آنے کے بعد سے لیکر اب تک پاکستان کا قرضہ 3 ہزار 7 سو اسی ارب روپیہ بڑھ گیا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ ڈالر کی قیمت جب ایک روپیہ بڑھتی ہے تو پاکستان کی قوم پر 1 سو 35 ارب روپئے کا قرضہ بڑھ جاتا ہے اور تین ہزار سات سو اسی ارب کا قرضہ بڑھنے کا مطلب ہے کہ صرف 2 مہینے میں فی پاکستانی قرضہ تقریباً 18 ہزار روپیہ اوپر۔

یہاں اس بحث میں جانے کی بجائے کے عمران اور شہباز میں کون زیادہ اچھا ہے اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ اگر پٹری پر پھنسی بس نکالنے کے لیے لڑنے والے ڈرائیور کے پاس کوئی پلان نہیں تھا تو اُس نے بس چلانے کی زد کیوں کی اور اس کی اس زد سے مسافروں کی جان کو کیا خطرات لاحق ہوئے یہ جاننا سب کے لیے بہت ضروری ہے۔

پاکستان میں صرف 2 مہینے پہلے پیٹرول 150 روپئے لیٹر تھا جو صرف 3 ہفتے میں 85 روپئے تک بڑھا دیا گیا، اسی طرح ڈیزل کی قیمت 110 سے زیادہ بڑھ گئی، پچھلے ایک مہینے میں بجلی 13 سے 14 روپئے فی یونٹ بڑھ گئی جس کا اطلاق جولائی کے بلوں میں ہوگا اور بجلی کا بل ادا کرنا سفید پوش کے بس سے باہر ہو جائے گا۔ گیس 45 فیصد بڑھا دی گئی، کھانے کا تیل فی لیٹر 3 سو روپئے تک صرف 2 مہینے میں بڑھ گیا اور سب سے اہم بات جس پر عوام پاکستان کا غور کرنا بہت ضروری ہے وہ یہ کہ حکومت کی طرف سے درخواست کی گئی ہے کہ عوام چائے پینا بند کر دیں کیونکہ چائے ڈالرز سے خریدی جاتی ہے لیکن جناب وزیر اعظم کے لیے پرائم منسٹر ہاوس میں ساڑھے سات کروڑ کا سوئیمنگ پول بنایا گیا ہے تاکہ وہ نہا کر تروتازہ رہ سکیں۔

سن 1947 سے لیکر اب تک عوام پاکستان نے بہت سے مشکل حالات دیکھے ہیں لیکن جو مشکل اب کے آن پڑی ہے یہ بلکل ایسی ہے جیسے کسی ویڈیو گیم کی آخری سٹیج ہوتی ہے۔ خواتین و حضرات ایک بات یاد رکھیے گا اگر اتفاق ہو تو ریت کی دیواریں بھی مضبوط قلعے کا کام کرتی ہیں اور اگر اتفاق نہ ہو تو مضبوط قلعے بھی ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ آج ہمیں اپنے دوست اور دشمن میں پہچان کی ضرورت ہے اور اگر ہم آج یہ پہچان نہ کر سکے تو کل کے متعلق دنیا کی باتیں سچ ثابت ہو جائیں گی۔ ہم لوگ روکھی سوکھی کھانے کے لیے تیار ہیں لیکن کیا پاکستان کے ادواروں کے اعلی افسران و حکومت روکھی سوکھی کھا سکتی ہے۔ یہ لوگ شائد اس بات سے غافل ہیں کہ یہ اگر افسران ہیں یا حکومت کر رہے ہیں تو صرف پاکستان کی وجہ سے اور اگر ملک کو کچھ ہو گیا تو یہ کہاں جائیں گے؟ اور اگر یورپ اور امریکہ وغیرہ میں چلے بھی جاتے ہیں تو جناب پرویز مشرف جو سخت بیمار ہیں(اللہ پاک سب مریضوں کو کامل شفا عطا فرمائے) اُن سے ہی سبق سیکھ لیں اور جان جائیں کہ یہ دُنیا فانی ہے اور رب کائنات کے سامنے پیش ہونا ہے اور پتہ نہیں کونسا مُنہ دیکھانا ہے۔

Feature Image Preview Credit: Shehbaz Sharif, CC BY 2.0, via Wikimedia Commons