عالم بننے کی تین شرطیں جو پُوری کیے بغیر علم نہیں ملتا

Posted by

علم انسان کو خالق کائنات کی طرف سے عطا ہونے والی وہ صفت ہے جو اسے باقی ساری مخلوق میں مُمتاز کرتی ہے اور مالک حق نے زمین پر علم کو پھیلا دیا اور انسان کے اندر اس کی کھوج رکھ دی سو غور کرنے والے اللہ کی نشانیوں سے علم حاصل کرتے ہیں اور یہ کہانی بھی ایک غور کرنے والے کی کہانی ہے۔

کہتے ہیں یمن کے بادشاہ یُوسف عصر کے دربار میں بادشاہ کوئی بھی کام اپنے دانا و عالم وزیر کے مشورے کے بغیر نہیں کرتا تھا، ایک دن بادشاہ نے وزیر سے سوال کیا "آپ نے اتنا علم کہاں سے حاصل کیا؟”۔

وزیر نے جواب دیا "بادشاہ سلامت میرے اتنے اُستاد ہیں کہ اگر میں اُن کا ذکر کرنا شروع کروں تو شائد مُجھے صرف اُنکے نام بتاتے بتاتے کئی دن گُزر جائیں لییکن میری زندگی میں تین اُستاد ایسے ہیں جنہوں نے میری زندگی بدل کر رکھ دی اور میں نے اُن کی بدولت معرفت تک رسائی حاصل کی”۔

بادشاہ نے وزیر سے کہا "آپ اپنے تینوں معزز اُساتذہ کے نام اور پتہ بتائیں میں اُن کو شاہی اعزاز کے ساتھ ابھی محل میں مدعو کروں گا اور اُنہیں اُن کے جائز منصب پر فائز کروں گا”، وزیر بادشاہ کی بات سُن کر مُسکرایا اور بولا” حضور میرے تین اُستادوں میں ایک کُتا ہے، دوسرا گلی میں موم بتی پکڑ کر چلنے والا ایک ننھا لڑکا ہے اور تیسرا صحرا کی بستی میں رہنے والا چور ہے "۔

یُوسف عصر وزیر کی بات سُن کر حیران ہُوا اور بولا ” اے میرے محترم اُستاد یہ تینوں آپ جیسے عظیم عالم کے اُستاد کیسے ہوسکتے ہیں؟ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی”۔

عالم بولا” میں دریا کے کنارے چلا جارہا تھا میں نے ایک پیاسے کُتے کو دیکھا جو پانی پینے کے لیے دریا کے کنارے پر آیا مگر دریا میں اپنا عکس دیکھ کر ڈر گیا اور بھاگ کر پیچھے ہٹ گیا مگر پیاس کی شدت زیادہ تھی وہ پھر دریا پر آیا اور اپنا عکس دیکھ کر بھاگ گیا، کئی دفعہ کوشش کرنے کے بعد آخر ایک کوشش میں اُس نے اپنے خوف کو شکست دی اور دریا کے پانی میں چھلانگ لگا دی۔

میں اُسے دیکھ رہا تھا میں نے اُس کُتے سے سیکھا کہ خوف کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنے والے کامیاب ہوجاتے ہیں۔

C:\Users\Zubair\Downloads\hands-1926414_1920.jpg
Resim Myriam Zilles tarafından Pixabay‘a yüklendi

پھر وزیر بولا ” ایک دفعہ گلی میں ایک ننھا لڑکا موم بتی پکڑ کر جا رہا تھا میں نے اُس سے پوچھا کیا تُم نے یہ موم بتی خُود جلائی ہے، وہ بچہ بولا جی بلکل، تب میں نے اُس سے پُوچھا کیا تُم بتا سکتے ہو کہ اس شمع کی روشنی کہاں سے آرہی ہے، ننھے لڑکا مُسکرایا اور اُس نے پھونک مار کر موم بتی بُجھا دی اور مُجھ سے کہا ” آپ نے شمع کو بُجھتے دیکھا ہے کیا آپ بتا سکتے ہیں روشنی کہاں چلی گئی؟۔ وزیر نے کہا میں اُس کی بات کا کوئی جواب نہ دے سکا تو وہ خود ہی بولا ” شمع کو جس نے پیدا کیا یہ اُسی کے پاس واپس چلی گئی”۔

عالم نے بادشاہ سے کہا ” لڑکے کی دانائی دیکھ کر میری انا اورعلم کا غُرور مٹی میں مل گیا اُس دن میں نے جان لیا کہ میں کُچھ نہیں جانتا "۔

دانا وزیر بادشاہ سے بولا تیسرا اُستاد چور ہے ” کئی سال پہلے کا واقع ہے میں صحرا میں زندگی سے مایوس ہوکربھوکا پیاسا بھٹک رہا تھا پھر مُجھے مٹی سے بنا ایک کمرہ نظر آیا میں وہاں پہنچا تو کمرے کے دروازے پر تالا لگا تھا اور ایک شخص کمرے کی دیوار میں سوراخ کرنے کی کوشش کر رہا تھا میں نے اُس سے پُوچھا یہاں قریب کوئی گاؤں یا بستی ہے جہاں میں کُچھ وقت قیام و طعام کر سکوں”۔

وہ شخص بولا اس صحرا میں کئی کئی کوس کی مُسافت پر صرف ریت ہے لیکن تُم میرے ساتھ اس کمرے میں رہ سکتے ہو اور میرے پاس کھانے کے لیے کُچھ کھجوریں ہیں جس سے تمہارا پیٹ بھر جائے گا”، وزیر بولا میں نے اُس سے پُوچھا” تُم کون ہو؟” تو اُس نے جواب دیا میں چور ہُوں اور اس کمرے میں نقب لگا رہا ہُوں شائد کُچھ مل جائے”۔

وزیر بولا اُس نے کمرے میں نقب لگائی مگر کمرہ خالی تھا، پھر میں نے اُس کے ساتھ اُس کمرے میں کُچھ دن قیام کیا وہ چور روزانہ چوری کی نیت سے نکلتا اور مُجھے کہتا تم دُعا کرو اور آرام کرواور پھر جب وہ واپس آتا تو میں اُس سے پُوچھتا "کُچھ ملا؟’ تو وہ مُسکرا کر سر انکار میں ہلاتا اور کہتا ” رب کی مرضی، کل وہ ضرور دے گا "۔

وزیر نے بادشاہ سے کہا” کئی دن کی ناکامی کے باوجود بھی اُس نے اُمید نہیں چھوڑی اور ہر روز وہ نئے عزم کے ساتھ ہنسی خوشی نکلتا، اُسے دیکھ کر میں نے سیکھا کہ مایوسی انسان کو برباد کردیتی ہے اور اُمید کا دامن کبھی نہیں چھوڑنا چاہیے”۔

دانا عالم پھر بادشاہ سے گویا ہُوا” میری زندگی کے یہ تین اُستاد سب سے بڑے اُستاد ہیں جنہوں نے میری انا کو کُچل کر میرے خوف کو ختم کردیا اور میرے اندر نا ختم ہونے والی اُمید کو زندہ کیا اور میں نے جانا کہ عالم بننے کے لیے انہیں تین شرائط کا پُورا کرنا سب سے زیادہ ضروری ہے”۔

نتیجہ: انا، خوف، اور نا اُمیدی یہ تین چیزیں ایسی ہیں جو علم کا راستہ روک دیتی ہیں اور جب انسان ان کو شکست دے دےتو کامیابیاں اُس کے قدم چُومتی ہیں۔