شاہراہ قراقرم جسے نیشنل ہائی وے 35 بھی کہا جاتا ہے کی کل لمبائی 1300 کلومیٹر ہے اس سڑک کا پُرانا نام Silk Route یعنی شاہراہ ریشم تھا جو حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور پنجاب ، خیبر پختونخواہ اور گلگت بلتستان سے ہوتی ہوئی خنجراب پاس پر چین میں داخل ہو جاتی ہے جہاں اسے چائنہ نیشنل ہائی وے 314 کا نام دیا گیا ہے۔
قراقرام ہائی وے کا شُمار دُنیا کی بُلند ترین سڑکوں میں ہوتا ہے جو خنجراب پاس پر سطح سمندر سے 4714 میٹر کی بُلندی سے گُزرتی ہے، انتہائی دُشوار گُزار اس سڑک کا شُمار دُنیا کے آٹھویں عجوبے میں بھی کیا جاتا ہے۔
اس آرٹیکل میں آج ہم آپ کو اس سڑک کی سیر کروائیں گے جس کو بناتے ہُوئے ہر ایک کلو میٹر پر ایک انسانی جان ضائع ہوئی اور یہ خطرناک رستہ جو ہر موڑ کے ساتھ ایک نئے اور خوبصورت منظر سے آنکھوں کو رنگین کر دیتا ہے آپ کو دیکھائیں گے چند تصویری جھلکیوں میں۔
اس سڑک کی تعمیر کا آغاز پاکستان اور چین کی دوستی کی یاد گار کے طور پر 1959 میں کیا گیا اور اسے 1979 میں عام ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا، اس خطرناک سڑک کی تعمیر کے دوران 200 چینی اور 810 پاکستانی مزدورں نے اپنی جان کا نظرانہ دیا۔
شاہراہ ریشم کا نقشہ

پاکستانی شاہراہ قراقرم
شاہراہ ریشم یعنی قراقرم ہائی وے کی لمبائی پاکستان میں 810 کلو میٹر ہے جس کی ابتدا ایبٹ آباد سے ہوتی ہے مگر این 35 نیشنل ہائی وے کو اس میں شامل کیے جانے کی وجہ سے آفیشلی اس سڑک کی ابتدا حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے جہاں یہ سٹرک دونوں اطراف سے گھنے اور سایہ دار درختوں میں گھری ہوئی ہے۔
ایبٹ آباد کے بعد اس سٹرک پر پہلا شہر مانسہرہ آتا ہے جہاں سے اس سڑک پر قراقرم کا خُوبصورت درختوں میں گھرا عظیم پہاڑی سلسلہ بھی شروع ہوتا ہے اور بل کھاتی یہ سڑک چھوٹے چھوٹے شہروں میں سے گُزرتی ہوئی جن میں ڈھوڈیال، بٹل،بٹاگرام، کندارشامل ہیں تقریبا 92 کلومیٹر کی مُسافت کے بعد جو تقریباً 3 گھنٹے کا راستہ ہے تھاکوٹ پہنچتی ہے۔ اور اس راستے پر دیکھنے والی آنکھ کو خُوبصورت نظاروں سے مالا مال کر دیتی ہے۔
تھاکوٹ سے دریائے انڈس جسےدریائے سندھ بھی کہاجاتا ہے اس سڑک کے ساتھ ساتھ بہنا شروع کر دیتا ہے۔
دریائیے انڈس پاکستان کا سب سے بڑا دریا ہے جس کی ابتدا کشمیر سے ہوتی ہے اور یہ دریا سارے پاکستان سے گُزرتا ہُوا ایک بڑھے رقبے کو سرسبز کرتا ہے اور پھر کراچی تک جاکر سمندر میں شامل ہوجاتا ہے۔تھاکوٹ سے آگے تقریباً 30 کلومیٹر پر بشام سٹی ہے جو اس علاقے کا بڑا شہر ہے۔
بشام سٹی میں نصب سنگ میل جس پر بشام سٹی سےمختلف شہروں کا فاصلہ درج ہے
داسو سے تھوڑا پہلے شاہراہ قراقرم
ایک خُوبصورت آبشار جس کا پانی میٹھا اور ٹھنڈا ہے
ایک اور آبشار
دریائے انڈس اور اُس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی شاہراہ قراقرم
دریائے انڈس کے اوپر سے گُزرتا ہُوا ایک پُل جس کی حالت نازک ہے
شاہراہ قراقرم پر دریائے انڈس کا ایک کنارہ جہاں بیٹھ کر سکون حاصل ہوتا ہے
خستہ حال شاہراہ قراقرم پر سے گُزرتے ہوئی ٹریفک
شاہراہ قراقرم پر ایک موڑ جہاں لینڈ سلائیڈ کا خطرہ رہتا ہے
شاہرا قراقرم پر سفر کرنے والے ٹرک
ایک خُوبصورت بہتا ہُوا نالہ جو سیاحوں کو رُکنے پر مجبور کردیتا ہے
دریائے انڈس میں شامل ہونے والا ایک خُوبصورت نالہ جسکے پانی کا رنگ سبز ہے
صدیوں سے مسلسل بہتا ہُوا دریائے انڈس
دریائے انڈس میں شامل ہونے والا ایک اور خُوبصورت نالہ
قراقرم ہائی وے پر داسو شہر کے بعد چلاس تقریباً 125 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے یہ سڑک انتہائی خستہ ہے جہاں پر جگہ جگہ لینڈ سلائیڈ مل سکتی ہے جس سے آگے جانے کا راستہ کبھی کبھی کئی کئی گھنٹے بند رہتا ہے اور یہ 125 کلومیٹر چھوٹی گاڑی والے 20 سے 30 کلومیٹر کی سپیڈ سے طے کر پاتے ہیں اور چلاس تک جاتے جاتے کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں
داسو سے چلاس جاتے ہُوئے ایک سنگ میل جسے دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ ابھی چلاس بہت دُور ہے
چلاس کے قریب دریائے انڈس جہاں گرمیوں میں شدید گرمی پڑتی ہے اور گرمی کی وجہ سے پہاڑ بھی جلے ہُوئے دیکھائی دیتے ہیں
چلاس دن کے وقت انتہائی گرم ہوتا ہے اور دُھوپ اتنی تیز ہوتی ہے کہ اگر تھوڑی دیر جسم پر پڑ جائے تو جلد سڑ جاتی ہے
چلاس سٹی کے قریب آنے پر مُسافروں کو انتہائی خُوشی ہوتی ہے اور وہ سفر کی تھکاؤٹ اُتارنے کے لیے یہاں اکثر رات گُزارنا پسند کرتے ہیں کیونکہ چلاس رات کو ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔
چلاس شہر کی تاریخ 5000 سال سے بھی زیادہ پُرانی ہے اور کہا جاتا ہے کے مہاتما بُدھ نے اس شہر میں بھی کافی عرصہ قیام کیا، چلاس سے آگے رائے کوٹ برج تقریباً 50 کلومیٹر پر ہے یہ راستہ سڑک خراب ہونے کی وجہ سے انتہائی دُشوار گُزار اور خطرناک ہے کیونکہ سڑک پر پہاڑوں سےچھوٹے اور بڑے پتھر گرتے رہتے ہیں جو گُزرنے والوں کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
قراقرم ہائی وے پر سفر کرنے والی بائیکرز جو کراچی سے چلے ہُوئے تھے
چلاس سے آگے دریائے انڈس پر سے گُزرتا ہُوا ایک پُل جس پر سے لوگ پتہ نہیں کیسے گُزرتے ہوں گے
پہاڑوں میں گُزر کرآنے والا پانی جسے کسی سمجھدار نے پانی کی بوتل کاٹ کر نل کی شکل دے دی جہاں گرمیوں میں گُزرنے والے پانی پیتے ہیں اور چہرہ دھوکر آگے سفر کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں
چلاس سے رائے کوٹ جاتے ہُوئے سڑک کی خستہ حالت
بل کھاتی قراقرم ہائی وے
اوکھے پینڈے لمیاں راہاں اور دریائے انڈس
اس علاقے میں اب لکڑی کی کٹائی پر پابندی ہے مگر اس پابندی سے پہلے محکمہ جنگلات نے اس علاقے کے سارے جنگل صاف کر دیے کیونکہ وہ مانتے تھے کہ صفائی نصف ایمان ہے
رائے کوٹ برچ آنے پر مُسافر خوشی سے پُھولے نہیں سماتے کیونکہ یہاں سے بہترین سڑک شُروع ہوتی ہے جو خُنجراب تک تعمیر کر دی گئی ہے اور کئی گھنٹے کا یہ راستہ اب صرف چند گھنٹوں میں طے کر لیا جاتا ہے۔
رائے کوٹ برج سے ایک راستہ فیری میڈوز کی طرف جاتا ہے جو زمین پر ایک جنت ہے ، فیری میڈو دُنیا کے 9ویں بُلند ترین پہاڑ نانگا پربت کا بیس کیمپ اور پاکستان میں عظیم پہاڑی سلسلے ہمالیہ کی ابتدا اسی پہاڑ سے ہوتی ہے جس کی اُونچائی 8126میٹر ہے۔
رائے کوٹ برج پرفیری میڈوز جانے کے لیے جیپ سٹیشن
نانگا پربت کا ایک نظارہ قراقرم ہائی وے سے
قراقرم ہائی وے پر رائے کوٹ برج کے بعد نانگا پربت ویو پوائنٹ جہاں دُنیا کی بہترین چائے ملتی ہے
نانگا پربت ویو پوائنٹ سے لی گئی نانگا پربت کی ایک تصویر
قراقرم ہائی وے پر تعمیر کے دوران ایک مزدور اپنی سواری پر خُوش دلی سے سوار۔
نانگا پربت ویو پوائینٹ سے گُزر کر تھوڑی ہی دیر کی مُسافت کے بعد جنکشن پوائینٹ آتا ہے جہاں سے دُنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں ، قراقرم، ہند کش اور ہمالیہ کے پہاڑ دیکھے جاسکتے ہیں
چلاس سے گلگت جو گلگت بلتستان کا کیپٹیل سٹی ہے تقریباً 134 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے اس سڑک پر دریائے گلگت دریائے انڈس میں شامل ہوتا ہے اور دُنیا کے تین عظیم پہاڑی سلسلوں کے مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں اور اسی سڑک پر ایک راستہ استور کی طرف چلاجاتا ہے جہاں سے آگے دیو سائی نیشنل پارک ہے جسے تبت کے بعد دُنیا کا بُلند ترین پلیٹو ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ گلگت سے قراقرم ہائی وے پر ہنزہ وادی تقریباً 92 کلومیٹر پر ہے اور نئی سڑک کی تعمیر کے بعد یہ راستہ صرف 90 منٹ میں طے ہوجاتا ہے
گلگت سے ہنزہ کی طرف قراقرم ہائی وے پر سفر کرتے ہُوئے کُچھ ہی کلومیٹر کے بعد راکا پوشی موڑ آتا ہے جہاں سے انتہائی خُوبصورت پہاڑ راکا پوشی اچانک آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے اور یہ خُوبصورت منظر آپ کی سفر کی ساری تھکاؤٹ ایک پل میں ختم کردیتا ہے۔
راکا پوشی 7788 میٹر
لیڈی فنگر جسے ببلی موشن بھی کہتے ہیں کی ایک خوبصورت تصویر
ہنزہ سے گُزر کر آپ عطا آباد جھیل پر پہنچتے ہیں اور پھر قراقرم ہائی وے پر سفر کرتے ہُوئے آپ کا پاسو کونز دیکھائی دیتی ہیں جنہیں دیکھ کر انسان حیرت زدہ ہو جاتا ہے۔
پاسو کونز ہنزہ
خنجراب نیشنل پارک ہوم آف بائیو ڈائیورسٹی
خنجراب پاس 4693 میٹر
Featured Image Preview Credit: Shaguftakarim [CC BY-SA 4.0], via Wikimedia Commons, Image has been resized.
Special Thanks to Imran Bajwa and Umair for preview pictures.