کے ٹو دُنیا کی دُوسری بُلند ترین چوٹی ہے جسے سر کرنے کی خواہش رکھنے والے ہر چار میں سے ایک کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے مگر پھر بھی دُنیا بھر کے کوہ پیما ہر سال کے ٹو کے بیس کیمپ پر ڈیرے ڈالتے ہیں اور سردیوں میں کبھی نہ سر ہونے والے اس خطرناک پہاڑ کو نیپالی کوہ پیماؤں نے اس سال پہلی دفعہ سر کیا اور تاریخ رقم کی اور یہی اعزاز اپنے نام کر کے واپس آتے ہُوئے آئس لینڈ کے جان سنوری، چلی کے جے پی موہر اور پاکستان کوہ پیما مُحمد علی صدپارہ 5 فروری کو لا پتہ ہو گئے۔

کے ٹُو پر حادثات کی تاریخ بہت پُرانی ہے سب سے پہلی بار 1939 میں اسے سر کرنے کی کوشش میں 4 کوہ پیما 8 ہزار میٹر سے اُوپر کی بُلندی پر لاپتہ ہوگئے اور پھر یہ تاریخ چل نکلی اور 2008 میں ایک ہی دن میں 11 کوہ پیما اس پہاڑ کو سر کرتے ہُوئے حادثے کا شکار ہُوئے اور کبھی واپس نہیں لوٹے۔
8611 میٹراونچے اس برف پوش پہاڑ پر جب کوئی لاپتہ ہوجاتا ہے تو اس کھیل کے کھلاڑی جانتے ہیں کہ اُسے ڈُھونڈنا تقریباً ناممکن بات ہے اور اکثر ریسکیو مشن پر جانے والے افراد کی اپنی زندگی داؤ پر لگ جاتی ہے اور اگر لاپتہ ہونے والے افراد 8 ہزار میٹر سے اوپر لاپتہ ہُوئے ہیں تب اُنہیں دُھونڈنا موت کا کھیل بن جاتا ہے۔
پاکستان میں اتنی بُلندی پر ریسکیو کرنے والا کوئی مخصوس ادارہ نہیں ہے اور اگر اتنی بُلندی پر کسی کو ریسکیو کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو پاک فوج سے رابطہ کیا جاتا ہے یہ کام اگرچہ پاک فوج کا نہیں ہے لیکن پھر بھی افواج پاکستان کے جانباز سپاہیوں نے لا تعداد ریسکیو آپریشنز میں انسانی ہمدردی اور دلیری کی ایسی کہانیاں رقم کی ہیں جنہیں کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا خاص طور پر2018 میں نانگا پربت کو سر کرنے والے 4 یورپین کوہ پیما جو اس خطرناک پہاڑ پر 6 ہزار 1 سو میٹر سے زیادہ اُونچائی پر حادثے کا شکار ہُوئے اور انہیں پاک فوج نے اپنے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے بحفاظت ریسکیو کیا جس پر پاکستانی ہیلی کاپٹر پائیلٹس کو فرانس کے اعلٰی سرکاری اعزازات سے نوازا گیا۔
8 ہزار میٹر سے اونچے پہاڑ پر ریسکیو کرنے کے لیے سب سے ضروری چیز ہیلی کاپٹر ہے، پاکستان آرمی کے پاس جدید ہیلی کاپٹرز ہیں لیکن یہ ہیلی کاپٹرز ریسکیو ٹیم کو 6 ہزار سے ساڑھے 6 ہزار میٹر کی بُلندی تک ہی چھوڑ پاتے ہیں اور اس سے آگے ٹیم کو روائتی طریقے سے پہاڑ سر کرنا پڑتا ہے جو کہ ایک وقت طلب اور دُوشوار کام ہے اور اتنی بُلندی پر ریسکیو مشن کے لیے وقت سب سے زیادہ اہم چیز ہوتی ہے کیونکہ اس بُلندی پر حادثے کا شکار ہونے والا زیادہ دیر تک سخت موسم کے باعث زندہ نہیں رہ سکتا۔

بُلند پہاڑوں کی اُونچائی پر ریسکیو کرنے کے لیے پاکستان کے پاس آگسٹا اے 109 اور اے ایس 350 جیسے طاقتور ہیلی کاپٹرز کا ہونا ضروری ہے جن کا انجن بُلندی پر کم آکسیجن کے باوجود کام کرتا ہو اور 29000 فٹ تک کی بُلندی پر ہُوور کرسکے اور اگر یہ ہیلی کاپٹر پاکستان کے پاس ہوتے تو جیسے نانگا پربت پر یورپین کوہ پیماؤں کو کامیابی کیساتھ ریسکیو کر لیا گیا ایسے ہی علی صدپارہ کی ٹیم کو بھی جلد تلاش کرنا عین ممکن تھا۔