کمشیر پچھلے 70 سال سے اقوام متحدہ کے چارٹر پر تھا اور پچھلے 70 سال سے اقوام متحدہ سمیت باقی دُنیا خاموش تماشائیوں کی طرح جموں اور کمشیر میں بھارت کی 7 سات لاکھ سے زیادہ فوج کو دیکھ رہی تھی اور پھر بھارت نے چند روز پہلے اپنے آئین سے آرٹیکل 370 کی شق نکال کر کشمیر کی خُود مختارانہ حثیت کا خاتمہ کرکے جموں اور کشمیر میں نہ ختم ہونے والی ایک ایسی لڑائی کا آغاز کر دیا جسکے نتائج سے بھارتی وزیر اعظم مودی صاحب یا تو بے خبر تھے یا پھر اُنہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔
بھارت نے جس دن سے آئین سے یہ 370 کی شق ختم کی ہے دُنیا بھر پر مودی صاحب کی انتہا پسندانہ پالسیاں کُھل کر سامنے آرہی ہیں اور ساری دُنیا کا میڈیا جس میں سی این این، بی بی سی، وائس آف امریکہ، واشنگٹن ٹائمز، نیویارک پوسٹ سمیت تقریباً تمام ہی ادارے بھارت کی اس انتہا پسندانہ حرکت پر اُسے کھل کر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور سفارتی محاذ پر بھارت کمزور سے کمزور تر ہوتا جارہا ہے۔
گُزشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل جناب انتونیوگوتریس نے اپنے ایک بیان میں بھارت کو خبردار کیا کے وہ ریاست جموں اور کشمیر کی قانونی حثیت کو متاثر نہ کرے کیوں کے یہ معاملہ اقوام متحدہ کے چارٹر پر ہے اور پاکستان اور بھارت شملہ معاہدے کے پابند ہیں جس میں دونوں اقرار کر چُکے ہیں کہ کمشیر کا پُر امن طریقے سے حل نکالا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے بھارت کے جموں اور کشمیر کے اندر لگائے گئے کرفیو اور انسانی حقوق کی پامالی پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ہندوستان کو ایسے اقدامات سے پرہیز کرنی چاہیے اور کشمیر کا حل سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے حل کرنا چاہیے۔
دوسری طرف آج مسلہ کشمیر پر 45 برطانوی ارکان پارلیمنٹ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری کو خط لکھا ہے اور بھارت کی طرف سے کشمیر کی خود مختارانہ حثیت کو ختم کرنے کی غیرآئینی حرکت کو رکوانے کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت کی اس حرکت سے اُنہیں شدید رنج پہنچا ہے۔
دُنیا کے دیگر ممالک بھی بھارت پر کڑی تنقید کر رہے ہیں اور تُرکی، چین سمیت کئی ممالک نے پاکستان کے موقف کی حمایت کی ہے، اور ہر طرح کے ساتھ کا وعدہ کیا ہے۔
بھارت کےانتہا پسند وزیر اعظم مُودی یقیناً سفارتی محاذ پر اس ناکامی کے بعد سوچ رہے ہوں گے کہ جموں اور کشیر کا جو "کٹا "وہ کھول بیٹھے ہیں اب اُن سے باندھا نہیں جائے گا، دیکھنا یہ ہے کہ اپنی اس غلطی کو وہ کتنی جلدی درُست کرتے ہیں اور اگر درُست نہیں کرتے تو دُنیا کی نگاہوں سے اپنی انتہا پسندانہ شخصیت کو چھپا نہیں پائیں گے۔