مہاراجہ رنجیت کے دربار میں فقیر کی حاضر جوابی

Posted by

مہاراجہ رنجیت سنگھ کا دور تھا، مہاراجہ نے ایک مُسلمان فقیر عزیز الدین جو کے انتہائی قابل انسان تھے کو وزارت خارجہ مقرر کر رکھا تھا اور مہاراج عزیز الدین پر بے تحاشا بھروسہ اور اعتبار کرتا تھا، مہا راجہ کے محل میں سوائے عزیز الدین کے اور کسی کو بھی بغیر اجازت کے داخل ہونا منع تھا۔

ایک دن فقیر عزیز نماز سے فارغ ہو کر تسبیح ہاتھ میں لیے ذکر کرتے محل میں تشریف لے گئے اور مہا راجہ کے قریب بیٹھ گئے، مہاراجہ بھی اُس وقت جواہرات کی ایک مالا جپنے میں مصروف تھا ا اور اہل ہنود کے طریقے پر تسبیح کے دانے باہر سے اندر کی طرف کھینچ رہا تھا، دوسری طرف فقیرالدین تسبیح کے دانے مسلمانوں کے دستور کے مطابق اندر سے باہر پھینک رہے تھے۔

رنجیت سنگھ نے جب عزیز الدین کو ایسا کرتے ہُوئے دیکھا تو وزیر خارجہ سے سوال کیا ” مالا کے دانوں کو باہر سے اندر کھینچنا بہتر ہوتا ہے یا اندر سے باہر کھینچنا”۔

یہ ایک مشکل سوال تھا جس کا جواب عزیز الدین کو دینا ہی پڑنا تھا، اگر وہ کہتے کے اندر سے باہر کھینچنا بہتر ہے تو مہاراجہ بُرا منا سکتا تھا کہ عزیز الدین اُس کے طریقے کو غلط قرار دے رہا ہے اور بادشاہ کی توہین کر رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے تھوڑے توقف کے بعد جواب دیا ” بادشاہ سلامت حصول خیر کے لیے باہر سے اندر کھینچنا بہتر ہے اور دفع شر کے لیے اندر سے باہر کھینچنا چاہیے”۔

ایک دن مہاراجہ رنجیت اپنے ولی عہد کھڑک سنگھ اور اپنے پوتے نہال سنگھ کے ساتھ محل میں بیٹھا تھا اتنے میں فقیر عزیز الدین بھی اُدھر آنکلے، مہاراجہ نے ولی عہد اور پوتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فقیر سے سوال کیا ” بتاؤ ہم تینوں میں سے زیادہ خوش قسمت کون ہے؟”۔

سوال مُشکل تھا مگر عزیز الدین کو ایسے سوالوں کے جوابات دینے کی خوب پریکٹس تھی بولے ” میری نظر میں ولی عہد کھڑک سنگھ زیادہ خوش قسمت ہیں جنہیں ایسا عالی مرتبہ باپ اور ایسا دلیر اور فرمابردار بیٹا ملا”۔