نائی کی دُوکان پر سیاسی گُفتگو کیوں منع تھی

Posted by

گذشتہ روز میں بال کٹوانے کیلئے حجام کی دُکان پر پہنچا تو سامنے دیوار پر جلی حروف میں لکھا نظر آیا ”سیاسی گفتگو کرنا منع ہے“۔ میں نے حجا م سے پو چھا کہ اِس جمہوری دور میں تمہیں سیا سی گفتگو پر پابندی لگانے کی کیا سوجھی؟ ۔

اُس نے بتایا کہ جناب! سیا سی گفتگو پہلے بحث میں تبدیل ہو تی ہے۔پھر گرما گرمی شروع ہو جا تی ہے اور بات تو تکرار سے شروع ہو کر گالم گلو چ تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر نو بت ہاتھا پائی اور لڑائی تک بھی جا پہنچتی ہے۔ ایک دو بار تو فریقین نے ایک دوسرے پر اسلحہ بھی تان لیا تھا۔

اُس نے مجھے بتایا کہ چند دن قبل قریبی چائے کے ہو ٹل پر تو فریقین نے ایک دوسرے پر فائرنگ بھی کر دی تھی اور بات تھانے کچہری تک جا پہنچی تھی۔ جس سے کئی دن اُن کا اور ہمارا کاروبار بند رہا۔ہم روزانہ محنت مزدوری کر کے کمانے اور کھانے والے لو گ ہیں۔

ہم تو ایک دن کے لئے بھی کاروبار کی بندش برداشت نہیں کر سکتے۔ حجام نے مجھ سے بڑی معصو میت سے یہ پو چھا کہ جناب! اگر ایسے لڑائی جھگڑئے ہی کرنے ہیں اور اپنی بات دوسرے کو طا قت ہی سے منوانی ہے تو پھر جمہوری نظام کا کیا فائدہ؟ میرے پاس اُس کے اِس سوال کا کوئی معقول جواب نہ تھا۔

سچی بات تو یہ ہے کہ ملک میں جمہوری نظام حکومت ہونے کے باوجود ہمارے اپنے رویے آج بھی آمرانہ ہی ہیں۔ ہم اپنی بات دوسرے کو بزور طاقت منوانا چاہتے ہیں نہ کہ دلیل کے ذریعے۔ جمہوری معاشروں کا تو خا صہ ہی یہ ہو تا ہے کہ اپنا نقطہ نظر دوسرے پر دلیل کے ساتھ پورے تحمل اور برد باری سے واضح کیا جائے۔ دوسرے کے نقطہ نظر کو بھی کھلے ذہن اور ٹھنڈے دل سے سُنا اور سمجھا جائے۔ دلیل کا جو اب دلیل سے دیا جائے۔

اگر دوسرے کا نقطہ نظر درست ہے تو اُسے کھلے دل سے تسلیم کیا جائے اور اگر آپ کو اُس کی سوچ سے اختلاف ہے تو فریق مخالف کو پیار محبت اور دلیل کے ساتھ اپنی بات سمجھائی جائے۔

تحمل اور برداشت جمہوریت کا حسن ہوتا ہے۔ مگر ہمارا جمہوری نظام اِس حسن سے بالکل ہی محروم ہے۔ ہم لوگو ں کی قوت برداشت صفر ہو چکی ہے۔ ہم مخالف کا نقطہ نظر سننے پر تیا رہی نہیں ہو تے اور اگر کوئی ہمارا نقطہ نظر نہ مانے۔

اُسے تسلیم نہ کرئے یا اُس سے اختلا ف کرئے تو ہم اُسے بالکل برداشت نہیں کر تے بلکہ فوراً گالی گلوچ اور تشدد پر اُتر آتے ہیں۔ ہمارا یہ طرز عمل جمہوری نظام کی روح کے مکمل طور پر منا فی ہے۔

مجھے اچھی طرح یا د ہے کہ ستر کے عشرے تک ہماری ملکی سیا ست میں رواداری، برداشت کا چلن عام تھا۔ چائے کے کھوکھوں اور حجام کی دُکانوں پر تب بھی سیا سی بحثیں ہو تی تھیں لیکن تب لو گ ایک دوسرے کا نقطہ نظر بڑے تحمل، بردباری اور کھلے دل سے سنتے تھے۔ ایک دوسرے سے اختلاف رائے بھی کرتے تھے مگر گفتگو میں اخلاقیا ت کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔

سیا سی جلسو ں میں مختلف سیاسی جما عتو ں کے قائدین اور راہنما بڑی پر جو ش تقریریں کیا کر تے تھے۔ کارکن سیا سی نعرے بھی لگا تے تھے لیکن اُس وقت تک سیا ست میں تشدد کا کوئی عنصر نہ تھا۔ مخالف نقطہ نظررکھنے والے سیاستدان بھی جلسوں سے خطاب کر تے تھے تو اپنے مخالفین کی تقریروں کا جواب اپنی تقریرو ں سے دیتے تھے۔ مخالفین کے کارکنو ں کی طرف سے لگائے گئے نعروں کا جو اب بھی جو ابی نعروں سے ہی دیا جا تا تھا۔

سیا سی جلسوں میں ایک دوسرے کے خلاف نظمیں بھی پڑھی جا تی تھیں۔ ایک دوسرے کو جگتیں بھی لگائی جا تی تھیں۔ یہ سب کچھ ہوتا تھا اگرنہیں ہو تا تھا تو کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہو تا تھا۔ مخالفین ایک دوسرے سے ہاتھا پائی نہیں کر تے تھے۔ تب تک جلسوں میں اسلحہ لے جانے کا تو کوئی تصور ہی نہ تھا۔ 1977؁ء کے مارشل لا کے بعد ملک میں جمہوری سر گرمیوں پر پابندیا ں لگ گئیں۔ ایک طویل عر صے تک وطن عزیز میں جمہوری عمل معطل رہا۔

اُسی دوران افغانستان میں امریکی تعا ون سے روس کے خلاف ”jahad“ شروع ہو ا۔ جس کے نتیجے میں ملک کے اندر اسلحے کی بہتات ہو گئی۔ اظہار رائے پرپابندیو ں کی وجہ سے لوگو ں کے درمیان مکالمے کی فضاء ختم ہو تی چلی گئی۔ آج ہمارے ہا ں مکالمے کا رواج مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے۔ عا م شہری تو رہے ایک طرف، ہمارے تو سیاسی راہنما تک ایک دوسرے سے مکالمہ کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ ہر کوئی اپنی بات اپنا نقطہ نظر دوسرے سے طا قت کے زور پر منوانا چاہتا ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ وطن عزیز میں ایک بار پھر مکالمے کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے اوراِسے عام کیا جائے۔ سیاسی اختلا فات کو ذاتی اختلا فات نہ بنایا جائے۔ پاکستان میں مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگ رہتے ہیں اِن سب کے درمیا ن بھی آج مکالمے کی سخت ضرورت ہے۔

اگر ہم ایک اچھا اور پر امن معا شرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں تو پھر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو پورے تحمل اور برد باری سے سننے کو رواج دینا ہو گا۔ دلیل کا جو اب دلیل سے دینے کی عادت ڈالنا ہوگی۔ اپنا نقطہ نظر سلیقے سے بیان کرنے کو اپنانا ہوگا۔

معمولی معمولی اختلا ف رائے پر ایک دوسرے سے گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑا کرنے سے مکمل اجتنا ب کر نا ہوگا۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جا تے ہیں تو پھر ہم لو گ آزادانہ طور پر پرسکون ماحول میں ایک دوسرے سے مکالمہ کر سکیں گے اور کسی کو بھی کہیں پر بھی یہ لکھنا نہیں پڑے گا کہ سیا سی گفتگو کرنا منع ہے یا مذہبی گفتگو کرنا منع ہے۔
(تنویر بیتاب)

Image Preview Credit:Thomas Schoch – www.retas.de [CC BY-SA 3.0], via Wikimedia Commons