ناک کھانے سے ایمیون سسٹم طاقتور ہوتا ہے یہ بات پڑھ کر یقیناً آپ ہنسے ہوں گے کیونکہ بات ہے ہی مضحکہ خیز لیکن مضحکہ خیز بات کو بھی اگر منظق کے ساتھ کیا جائے تو منظق اُسے غور کرنے والوں کی سماعتیں عطا کر دیتی ہے اور غور کرنے والے بات کی گہرائی کا اندازہ لگا لیتے ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر سکاٹ نیپر ایمیونالوجی، بائیو کمیسٹری اور مائیکروبیالوجی کے ماہر ہیں اور کینیڈا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں ، آپ نے سی بی سی نیوز کینیڈا کو ایک انٹرویو میں اپنی تھیوری پیش کی ہےکہ ناک کھانے سے ایمیون سسٹم طاقتور ہو سکتا ہے ۔
آجکل کرونا کی وجہ سے ہم سب جانتے ہیں کہ جب کوئی جراثیم ہمارے جسم پر حملہ آور ہوتا ہے تو ایمیون سسٹم اُس کے خلاف جنگ کرتا ہے اور جنگ جیتنے کے بعد اُس جراثیم کی شناخت کو اپنے اندر محفوظ کر لیتا ہے اور آئندہ جب وہ جراثیم حملہ کرتا ہے تو ایمیون سسٹم اُسے پہلے سے شناخت کرکے حملہ کرنے سے روک دیتا ہے اور اسی تکنیک کو ویکسینز میں بھی استعمال کیا جاتا ہے اور ویکسین کے ذرئیعے جسم میں کسی بیماری جیسے کرونا وغیرہ کا جراثیم داخل کیا جاتا ہے اور پھر جسم اُس کے خلاف قوت مدافعت پیدا کر لیتا ہے۔
ڈاکٹر سکاٹ کا کہنا ہے کہ ناک کے چوہوں (Snots) کا کھانا بھی ایمیون سسٹم کو اردگرد کے ماحول میں موجود جراثیموں سے آشنائی دے سکتا ہے اور اس کے ذائقے کی وجہ سے جسم کو سگنل مل سکتا ہے کے وہ اُسے کنزیوم کرے اور اس میں موجود جراثیموں کی معلومات نکال کر اُن کو ایمیون سسٹم میں درج کرے اور یہ ایک مُفت کی ویکسین کی طرح ہمیں صحت مند رکھ سکتا ہے۔
ڈاکٹر سکاٹ کی اس تھیوری کو ہائی جینک فُوڈ پر ریسرچ کرنے والے اُن ماہرین نے سراہا ہے جنکا ماننا ہے کہ حد سے زیادہ ہائی جینیک فُوڈ کا استعمال ہمارے جسم کو الرجی اور انفیکشن میں مُبتلا ہونے کے خطرے کو بڑھا دے دیتا ہے اور نیچر سے دُور کر دیتا ہے۔
پروفیسر سکاٹ نیپر نے مزید بتایا کہ وہ اپنے سٹوڈنٹس کو سائنس لیکچرز میں ناک کھانے کا بتاتے ہیں تاکہ وہ سمجھ سکیں کہ ایک انتہائی سادہ سا سوال کتنے دروازے کھول سکتا ہے جن پر سائنس ریسرچ کرے۔
پی ایچ ڈی ڈاکٹر سکاٹ اپنے اس ہائپوتھیسیز کو اپنے سٹوڈنٹس پر آزمانا چاہتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اُنہیں دو گروپس میں تقسیم کیا جائے جن میں سے آدھے افراد Snot Pick کریں اور آدھے اس نہ پسندیدہ عمل کو نہ کریں اور پھر دونوں اپنی روزمرہ کی زندگی کے کاموں کو سرانجام دیں اور آدھے روزانہ ناک کھانے کے عمل کو جاری رکھیں تاکہ جانچ کی جا سکے کے اس عمل سے اُن کے ایمیون سسٹم پر کیا اثرات پیدا ہوتے ہیں۔
کرونا وائرس نے جہاں یورپ اور امریکہ میں تباہی مچائی وہاں پاکستان اور انڈیا جیسے ممالک میں یہ وائرس اتنا خطرناک ثابت نہیں ہُوا اور اگر ڈاکٹر سکاٹ نیپر کی تھیوری کو مدنظر رکھتے ہُوئے دیکھا جائے تو ان ممالک میں بچے مٹی کھاتے ہیں، گندے ہاتھ مُنہ میں ڈال لیتے ہیں، مُنہ سے ناخن کاٹتے ہیں اورنیچر کے قریب رہتے ہُوئے اپنے ایمیون سسٹم کی ڈیٹا بیس میں بہت سے جراثیموں کا اندراج کرتے جاتے ہیں اور اپنی قوت مدافعت کو مضبوط بنا لیتے ہیں تبھی شائد کرونا ہمارے مُلک میں اتنا خطرناک ثابت نہیں ہُوا۔
آپ ڈاکٹر سکاٹ کی تھیوری سے کتنا متفق ہیں جو ابھی صرف تھیوری ہے کیونکہ اُنہیں ابھی تک کوئی رضا کار نہیں ملا جو اُن کے مشاہدے کے لیے اپنی ناک روزانہ کھائے، کیا آپ ڈاکٹر صاحب کی ریسرچ میں اُن کے لیے رضاکار بننا چاہیں گے؟، ہمیں اپنے خیالات سے آگاہ ضرور کیجیے گا اور کرونا سے بچنے کے لیے روزانہ دن میں کئی بار اپنے دھونا مت بھولیے گا اور ماسک کا استعمال کیجیے گا کیونکہ ڈاکٹر سکاٹ صاحب کُچھ بھی کہیں صفائی نصف ایمان ہے۔
Featured Image Preview Credit: Lowepickingnose, CC BY-SA 4.0, via Wikimedia Commons, The Image has been Edited.