نعمت اللہ شاہ کی چند عظیم پیش گوئیاں اور پاکستان کشمیر اور بھارت

Posted by

کیا دیکھنے کے لیے آنکھ کا ہونا ضروری ہے؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آپ کو طفل مکتب بھی دے سکتا ہے کہ جی ہاں آنکھ کے بغیر انسان اندھا ہے۔
اہل دانش کہتے ہیں جو بینائی کسی واسطے کی محتاج ہو اُس پر بھروسا نہیں کرنا چاہیے وہ آپ سے جھوٹ بول سکتی ہے دھوکا دے سکتی ہے جیسے آنکھ کی بینائی روشنی کے بغیر دیکھ نہیں سکتی روشنی کے بغیر آنکھ اندھی ہے، اور روشنی کیساتھ بھی اس کی بینائی دھوکا دے سکتی ہے، جسے ساکن ٹرین میں بیٹھے ہوں اور دوسری پٹری سے کوئی ٹرین تیزی سے گُزرے تو لگتا ہے کہ آپ کی ٹرین چل رہی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔

اسی لیے اہل دانش کا کہنا ہے کہ "ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی،، ہو دیکھنا تو دیدہ دل وا کرے کوئی”، مگر سائنس اس بات کو نہیں مانتی اُس کا کہنا ہے کہ دل خون کو جسم میں ترسیل کرتا ہے اور دیکھنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، آج ماڈرن سائنس کا دور ہے اور انسان سائنس سے کئی بار دھوکا کھانے کے باوجود سائنس پر یقین رکھتا ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم اپنے موضوع پر آئیں اہل دانش اور اہل علم کی ایک مُلاقات کا ذکر کرنا ضروری ہے اور یہ مُلاقات مُوسٰی علیہ السلام اور خضر کے درمیان ہُوئی، دونوں نے ایک کشتی میں سفر کیا جو بلکل نئی تھی مگر خضر نے کشتی میں سوراخ کر دیا جس پر مُوسٰی علیہ السلام کو بہت تعجب ہُوا، بات تعجب کی تھی کیونکہ غریب مُلاح کی کشتی کا بیٹرہ غرق کر دیا تھا حضرت خضر نے۔

مُوسٰی علیہ السلام نے کہا یہ آپ نے کیا کیا، مُوسٰی کی بات بلکل ٹھیک تھی غریب کا نُقصان کر دیا تھا خضر نے، مگر مُوسٰی علیہ السلام کی دانش وہاں سے نہیں دیکھ رہی تھی جہاں سے جناب خضر کا علم اُن کو بینائی عطا کر رہا تھا چنانچہ جب خضر علیہ السلام نے بتایا کے اس ندی پر ایک بادشاہ جسے کشتیوں کی ضرورت ہے آنے والا ہے اور وہ اس کشتی کو دیکھ کر اس غریب مُلاح سے کشتی چھین لے گا اس لیے میں نے کشتی میں سوراخ کر دیا تاکہ بادشاہ اس کشتی کو چھوڑ دے اور غریب مُلاح کا کاروبار بند نہ ہو، تب مُوسٰی خاموش ہوگئے۔

دوستو آنکھ کی بینائی سے دیکھنے والے مُستقبل میں نہیں دیکھ سکتے اور نہ ہی وہ ایسی کسی بات پر یقین کرتے ہیں، لیکن مُستقبل میں دیکھنا اور اُس کی پیشگوئی کرنا اہل دانش کی قدیم روایت ہے، مگر اہل دانش کی نگاہ بھی محدود ہے کیونکہ وہ 100 سال سے آگے نہیں دیکھ سکتے، مگر اہل علم کی نگاہ 100 سال سے بھی بہت آگے جاتی ہے اور وہ صدیوں پہلے آنے والے حالات کی پیش گوئی کرتے ہیں جنہیں نہ اہل دانش مانتے ہیں اور نہ ہی آنکھ کی بینائی پر یقین کرنے والے مانتے ہیں کیونکہ جب تک وہ خُود دیکھ نہ لیں اُنہیں عقل تسلیم نہیں کرنے دیتی۔

اس آرٹیکل میں ہم اہل علم کی چند پیش گوئیوں کو شامل کر رہے ہیں جو اُنہوں نے صدیوں پہلے پاکستان کشمیر اور بھارت کے آج کے حالات کے متعلق کیں اور جو اب اہل دانش کو نظر آ رہی ہیں مگر آنکھ سے دیکھنے والے بھارت کے اہل نظر حکمران ابھی تک اندھیرے میں ہیں اور اُن پیشگوئیوں پر بلکل یقین نہیں رکھتے۔

نُور الدین نعمت اللہ کی پیشگوئیاں

نُور الدین تاریخ جنہیں نعمت اللہ ولی کے نام سے جانتی ہے ایران کے صُوبے کرمان کے شہر میہان میں مدفون ہیں جنہیں نے 1431 عیسوی میں 105 سال کی عُمر میں انتقال کیا۔
نعمت اللہ ولی مشہور صوفی بُزرگ اور فارسی شاعر ہیں جنہوں نے اپنی شاعری میں دُنیا کے متعلق بہت ساری پیشگوئیاں کی جو 300 سے زائد اشعار پر مشتمل ہیں اور جو اب تک تمام کی تمام حرف بہ حرف پوری ہوگیں۔

آج ہم نعمت شاہ صاحب کی اُن پیشگوئیوں کا ذکر کریں گے جن کے پُورے ہونے کا وقت اہل دانش کو نظر آنا شروع ہوگیا ہے اور آج یا کل یا پرسوں یا کسی بھی وقت اُن کی باتیں اہل نظر کو بھی سچ ہوتی دیکھائی دینے والی ہیں۔

اہل دانش کو دیکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان اور بھارت مسلہ کشمیر پر ایک دُوسرے سے برسرپیکار ہوجائیں گے ، اہل نظر اس بات کو ابھی نہیں مان رہے ، اور اہل علم 855 سال پہلے اس لڑائی کے متعلق کیا فرما گئے ہیں آئیں دیکھتے ہیں۔

نعمت اللہ شاہ صاحب نے اپنے اشعار میں ظہیر الدین بابر سے لیکر کئی مغل بادشاہوں کی برصغیر میں بادشاہی کی پیش گوئیاں کی جو تمام کی تمام پُوری ہوئی، آپ نے انگریزوں کے برصغیر میں آنے کی پیش گوئی کی وہ پُوری ہوئی پھر آپ نے پاکستان اور بھارت کے بننے اور لاکھوں انسانوں کے مارے جانے کی پیش گوئی کی جو حرف بہ حرف پوری ہو گئی پھر انگریزوں کے ایک فساد کو چھوڑ جانے کی پیش گوئی کی جو مسلہ کشمیر کی صورت میں پُوری ہوگئی، پھر آپ نے پاکستان اور بنگلہ دیش کے الگ ہو جانے کی پیش گوئی کی وہ بھی پُوری ہوگئی۔

پاکستان کہ آج کے موجودہ حالات پر نعمت اللہ ولی نے کیا فرمایا آئیں اُن کے چند اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں۔

نعمت اللہ صاحب کے ایک شعر کا ترجمہ”قاضی جہالت کے منصب پر ہوں گے اور بڑے بڑے منصب والے بہانوں سے رشوت لیں گے”۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال ہر پاکستانی کی نگاہ میں ہے اور جانتے ہیں کے ایسا ہی ہو رہا ہے اور نعمت اللہ ولی کے اس شعر کو پڑھ کر حیران ہیں کے 855 سال پہلے اُنہیں یہ باتیں کیسے معلوم تھیں۔

ایک اور شعر کا ترجمہ ” اگر منصف کو چند سکے رشوت مل جائیں گے تو وہ شکاری کُتوں کی طرح بہانے بنائے گا”۔ آج ہمارا عدالتی نظام ہم سب کی نگاہوں کے سامنے ہے کیس کو لمبا کر دیا جاتا ہے اور ظالم مظلوم کے عدالت میں اتنے پھیرے لگواتا ہے کہ مظلوم کی بس ہوجاتی ہے اور قاضی یہ سارے کام رشوت لیکر با آسانی کر دیتا ہے۔

ایک اور شعرکا ترجمہ ” ایسے وقت میں اہل حق نظر آنا بند ہو جائیں گے اور لوگ ظالم اور جابر لوگوں کے سر پر مسند کی دستار رکھ دیں گے۔”

پھر اس کے بعد شاہ صاحب اپنے اشعار میں فرماتے ہیں جن کا ترجمہ ہے۔ "لوگ نماز سے غافل ہو کر شہوت کے غلام ہوں گے اور اسلامی فرائض جیسے روزہ ، نماز، صدقہ، خرات وغیرہ سب غائب ہو جائیں گے اور ذکر کی ریاکار محفلیں ہوں گی ۔

آج موجودہ حالات ان سب باتوں کی عین عکاسی کر رہے ہیں اور یہ تمام باتیں اہل نظر کو بھی نظر آ رہی ہیں۔

اب نعمت شاہ صاحب کے اُن اشعار کا ذکر کرتے ہیں جو اہل دانش کو خطے کے موجودہ حالات اور بھارت اور پاکستان کے درمیان تناؤ دیکھ کر نظر آ رہے ہیں مگر اہل نظر ابھی تک بصیرت سے محروم ہیں۔

ایک شعر کا ترجمہ "اس کے بعد مُلک ہندوستان یعنی برصغیر پاک و ہند میں ایک شور اُٹھے گا اور اس خطے میں فتنہ اور فساد شروع ہو جائے گا۔”

بھار ت نے کشمیر کے حق خود اردایت کی شق 370 اپنے آئین سے نکال کر یہ شور پیدا کر دیا ہے جسے اہل نظر دیکھ رہے ہیں اور خوف زدہ ہیں۔

ایک اور شعر کا ترجمہ "اس موقع پر بُت پرست مسلمانون پر قہر اور جبر کا مظاہرہ کریں گے”۔

اوپر دیئے گئے دونوں اشعار کشمیر کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ شائد اسی موقع کے لیے ارشاد فرمائے گئے ہیں، جو لوگ انڈین میڈیا کو دیکھتے ہیں اُنہیں اندازہ ہے کہ وہ آجکل کیسے کلام کرتے ہیں اور اُن کے لیڈر کونسی زُبان استعمال کر رہے ہیں۔

نعمت شاہ صاحب کے کُچھ اشعار جن میں خوشخبری کی پیش گوئی ہے۔

ترجمہ "مُسلمانوں یعنی برصغیر کے مُسلمانوں کی مدد کے لیے جنگی فنون اور سامان حرب سے آراستہ لشکر آئے گا جس سے مُسلمانون کو زبردست قوت حاصل ہوگی”۔

ایسا ظاہر کی آنکھ سے دیکھا جائے تو ہوتا نظر نہیں آ رہا مگر یہ پیش گوئی اُس شخص کی ہے جس کی باقی تمام پیش گوئیاں سچ ثابت ہوئی ہیں۔

ایک اور شعر کا ترجمہ "عربی، تُرکی، فارسی، عثمانی یعنی مشرک وسظی والے بے کراں ہوکر مدد کے لیے آئیں گے”۔

ہم اہل نظر کو یہ بات بھی دیکھائی نہیں دے رہی کیونکہ یہ لوگ تو کئی صدیوں سے خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور کبھی ایک دوسرے کی مدد کے لیے نہیں آئے تو برصغیر کے مسلمانوں کی مدد کو کیسے آئیں گے ، مگر یہ پیش گوئی نعمت اللہ ولی نے 855 سال پہلے کی ہے اور جن کی باتیں دُنیا جانتی ہے حرف بہ حرف پُوری ہوئی ہیں۔

پھر شاہ صاحب فرماتے ہیں، ترجمہ "پہاڑوں اور بیابانوں کی طرف سے مدد آئے گی اُس وقت ہر طرف آگ کا سیلاب ہوگا، چترال اور نانگا پربت اور چین ساتھ مل جائیں گے اور تبت میدان جنگ بنے گا”۔
بھارت ان علاقوں پر اپنا قبضہ کرنا چاہتا ہے جس میں چترال نانگا پربت اور تبت سارے شامل ہیں تبت چین کے کنٹرول میں ہے اور باقی علاقے پاکستانی کے زیر کنٹرول ہیں لیکن اگر آگ کا سیلاب رواں دواں ہُوا تو کون بچے گا اور کون نہیں اس کافیصلہ تو شائد وقت کرے گا لیکن فتح کی پیش گوئی ہمارے لیے ہی ہے۔

اپنی ایک اور پیش گوئی میں نعمت اللہ صاحب فرماتے ہیں "تُرکی چین اور ایران مل جائیں گے اور ہندوستان پر اُن کا قبضہ ہو جائے گا”۔

اہل نظر کو ابھی ایسا کُچھ بھی دیکھائی نہیں دے رہا مگر اہل دانش کہتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔

ایک اور شعر کا ترجمہ ” یہ چیونٹیوں اور مکڑیوں کی طرح راتوں رات غلبہ حاصل کریں گے اور پھر نعمت اللہ  صاحب  اللہ کی قسم کھاتے ہیں کے ایسا ہی ہوگا”۔

ایک اور شعر کا ترجمہ ” حج اور نماز عید سے پہلے پہلے تمام مقبوضہ علاقوں پر قبضہ حاصل کر لیا جائے گا اور دریائے اٹک کا پانی خون سے سُرخ ہو جائے گا اور یہ لڑائی 6 مہینے تک جاری رہے گی اور اس میں فتح مسلمانوں کی ہوگی”۔

بھارت کے اہل نظر سمجھتے ہیں کہ اُن کا اسلحہ اور جنگی قوت سے مسلمان دب جائیں گے، بھارت کے اہل دانش جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوگا اور بھارت کے اہل علم بھارت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں اور پاکستان بھی چاہتا ہے کہ خطے میں امن قائم رہے مگر اگر بھارت نے جنگ مسلط کی تو پھر مجبوراً ہمیں لڑنا پڑے گا اور ہم لڑیں گے چاہے اُس کے لیے نعمت اللہ صاحب کوئی پیش گوئی بھی نہ کرتے اور چاہے شکست ہمارا مُقدر بنتی مگر ہم اپنی بقا کے لیے ہر قُربانی اور ہر آزمائش سے گُزر جاتے اور گُزر جائیں گے انشا اللہ۔