ویکسین کی تیاری میں کون سب سے آگے اور اُسے کتنا وقت لگے گا

Posted by

چین کےشہر وہان سے شروع ہونے والا وبائی مرض اس وقت پُوری دُنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چُکا ہے پوری دُنیا میں اس وقت 4.2 ملین سے زیادہ لوگ اس مرض کا شکار ہو چُکے ہیں اور ہر گُزرتے دن کیساتھ ان افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہےاور جدید میڈیکل سائنس کے پاس فی الوقت اس کا کوئی علاج موجود نہیں۔

وبائی امرض کی ویکسین بنانے والی 100 کے قریب کمپنیاں دن رات اس وائرس کی ویکسین بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے پر بازی لیجانے کی دوڑ میں لگی ہُوئی ہیں اور کون سب سے پہلے بازی لیجائے گا اور اُسے کتنا وقت لگے گا اس بات کو جاننے کے لیے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کسی بھی ویکسین کی تیاری کے لیے کتنے مراحل درکار ہوتے ہیں۔

امریکی ادارے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے مُطابق ایک کامیاب ویکسین کو 6 مراحل میں سے گُزرنا پڑتا ہے۔

نمبر 1 تحقیقی مرحلہ

اس مرحلے میں سائنس دان اس چیز کا مطالعہ کرتے ہیں کے بیماری کے لیے قُدرتی دوا کامیاب ہوگی یا مصنوعی تریاق بنانے کی ضرورت ہے، مصنوعی تریاق میں متعلقہ وائرس کی کمزور نسل کو بھی جسم میں داخل کرنے کے متعلق سوچاجاتا ہے تاکہ جسم کا مدافعتی نظام اس وائرس کو شکست دے کر اپنے اندر اس کے خلاف دفائی نظام قائم کر لے۔

نمبر 2 پری کلینکل ٹرائل

اس مرحلے میں ٹشو کلچر اور سیل کلچر نظام کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور عام طور پر تیار کی جانے والی دوا کو جانوروں پر استعمال کروایا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ کیا دوا سے جانوروں کا ایمیون سسٹم بیماری کو قابو پانے کے قابل ہُوا یا نہیں، بہت سی ویکسینز اس مرحلے پر ناکام ہوجاتی ہیں۔

چین کی کمپنی سینوک بائیوٹیک نے دعوی کیا ہے کہ اُنہوں نے کرو نا کے خلاف ایک ویکسین بندروں پر استعمال کی ہے اور پھر ان بندروں پر وائرس چھوڑا اور یہ نتیجتاً جن بندروں کو ویکسین لگائی گئی تھی اُن کی اکثریت کرو نا کی وبا سے محفوظ رہی یہ دوا اس وقت انسانوں کے کلینکل ٹرائل کے فیس ون میں داخل ہو چُکی ہے۔

نمبر 3 کلینکل ڈویلپمینٹ

اس مرحلے میں کمپنی ویکسین کو انسانوں پر استعمال کرنے کی اجازت طلب کرتی ہے اور اجازت مل جانے پر ویکسن کو کلینکل ڈویلمپینٹ کے 3 فسیز میں سے گُزرنا پڑتا ہے۔

فیس ون

فیس ون میں دوا کو لوگوں کے ایک چھوٹے گروہ پر استعمال کروایا جاتا ہے اور عام طور پر اس گروہ میں 100 سے کم لوگ شامل کیے جاتے ہیں اور دیکھا جاتا ہے کہ دوا کے انسانوں پر کیا اثرات مرتب ہُوئے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی میں تیار کی گئی ویکسین اس وقت اس مرحلے سے گُزر رہی ہے، آکسفورڈ کے سائنسدانوں نے 3 مہینے سے بھی کم عرصے میں اس ویکسین کو تیار کیا ہے اور اس مہینے میں اس کے نتائج متوقع ہیں اور اگر نتائج کامیاب ہو گئے تو اسے فیس 2 میں داخل کر دیا جائے گا۔

فیس ٹو

اس مرحلے میں تیار کی گئی ویکسین سینکٹروں لوگوں کو استعمال کروائی جاتی ہے اور مزید نتائج حاصل کیے جاتے ہیں اور اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ دوا کی کتنی مقدار کا استعمال کیا جائے۔

امریکی بائیوٹیک کمپنی موڈرنا کی تیار کی گئی ویکیسن کلینکل ڈویلپمینٹ ٹرائل کے فیس ون میں کامیاب ہوچُکی ہے اور اسے اب فیس ٹو میں ٹرائی کرنے کی تیاریاں مکمل کی جارہی ہیں۔

فیس تھری

اس مرحلے میں ویکسین کو ہزاروں لوگوں کو استعمال کروایا جاتا ہے اور اس کے سائیڈ ایفکٹس نوٹ کیے جاتے ہیں جو عام طور پر پہلے دو فیسیز میں پُوری طرح کُھل کر سامنے نہیں آتے۔

ابھی تک کوئی کمپنی کرو نا ویکسین کے اس مرحلے میں داخل نہیں ہُوئی اور اگر آکسفورڈ یونیورسٹی اور موڈرنا کی بنائی گئی ویکیسن اپنے فیسیز میں کامیاب ہوتی ہیں تو اُمید ہے کہ ایک سے دو مہینے میں وہ اس فیس میں داخل ہو جائیں گی۔

نمبر 4 ریگولیٹری ریوئیو اور اجازت نامہ

کلینکل ٹرائلز کے تینوں مراحل میں کامیاب ہونے والی ویکسن کو بنانے والی کمپنی اس مرحلے میں بائیولوجیک لائسنس ایپلیکیشن کے لیے درخواست دیتی ہے جو اگر قبول ہوجائے تودوا کی تیاری کا پانچواں مرحلہ شروع ہوتا ہے۔

نمبر 5 مینوفیکچرینگ

دوا بنانے والی بڑی کمپنیاں اس مرحلے میں دوا کی تیاری کے لیے انفراسٹکچر مہیا کرتی ہیں تاکہ بڑے پیمانے پر دوا کی تیاری کی جاسکے اور ساتھ ہی ساتھ اس مرحلے میں دوا کی قیمت اور کون کتنا پرافٹ لے گا یہ بھی طے کیا جاتا ہے۔

نمبر 6 کوالٹی کنٹرول

دوا کی بڑے پیمانے پر تیاری کے بعد یہ مرحلہ شروع ہوتا ہے جو کبھی کبھار شروع ہونے میں صدیاں بھی لگا دیتا ہے، اس مرحلے میں کلینکل ٹرائل کے فیس فور پر بھی تحقیق کی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ بڑے پیمانے پر دوا کیا اثرات پیدا کر رہی ہے۔