انسان دُنیا کی کتنی ہی بادشاہی حاصل کر لے ایک چیز اُسے اندر ہی اندر بتاتی رہتی ہے کہ موت پر اُس کا کوئی اختیار نہیں ہے اور یہ بات زمین پر خُدائی کے دعوے کرنے والے بھی تسلیم کرتے تھے۔
ہمارا ایمان ہے کہ رب کائنات کہ اختیار سے باہر کوئی شے نہیں ہے اور موت کیساتھ ساتھ زندگی بھی اُسی کے اخیتار میں ہے اور وہ رحیم مولا غور کرنے والوں کے لیے اپنی طاقت اور اختیار کی نشانیاں دیکھاتا رہتا ہے تاکہ سمجھنے والے سمجھ جائیں۔
یہ کہانی ارجنٹائن 2 اکتوبر 1887 میں پیدا ہونے والی ایک خاتون وائیولیٹ جیسوپ کی ہے جو اپنی زندگی میں 3 بحری حادثوں کا شکار ہُوئی اور تینوں بار بچ گئی۔

وائیولیٹ جیسوپ ارجنٹائن میں بھائیا بلانکا میں پیدا ہُوئی اور اپنے 9 بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی جس سے اپنے بچپن کا زیادہ وقت اپنے بہن بھائیوں کو گود میں اُٹھا کر گُزارا، بچپن میں وائیولیٹ ٹیوبرکلاسسز کی بیماری کا شکار ہُوئی اور ڈاکٹرز نے کہا کہ اس کا بچپنا مشُکل ہے مگر رب کائنات نے اسے شفا بخشی تاکہ اختیار کس کا ہے دیکھنے والے دیکھ لیں۔
جیسوپ 16 سال کی تھی جب اس کے باپ کا انتقال ہوگیا تب اسکی فیملی ارجنٹائن سے انگلینڈ آگئی جہاں جیسوپ نے ایک کانونٹ سکول میں داخلہ لیا اور سکول کے اوقات کے بعد اپنی چھوٹی بہن کی دیکھ بھال کرتی کیونکہ جیسوپ کی ماں بحری جہازوں میں سٹیورڈس کی نوکری کرتی تھی۔
ماں کے بیمار ہونے پرجیسوپ نے سکول کو خیرباد کہا اور ماں کی طرح سٹیورڈاس لگ گئی اور اسے 21 سال کی عُمر میں رائل میل لائن میں پہلی جاب ملی۔
پہلا حادثہ اولمپیکس

1911 میں جیسوپ نے وائٹ سٹار ویسل میں اُنکے جہاز آر ایم ایس اولمپیکس میں بطور سٹیورڈ نوکری حاصل کی اور اسی سال یہ لگژری مسافر بحری جہاز سمندر میں برطانوی جنگی بحری جہاز ایچ ایم ایس ہاک کے کے ساتھ ٹکرا گیا مگر اس حادثے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہُوا اور دونوں جہاز بغیر ڈُوبے ساحل تک لوٹ گئے۔
دوسرا حادثہ Titanic

یہ جہاز بھی ایک بڑا لگژری مُسافر جہاز تھا جس کے بنانے والوں کا کہنا تھا یہ کبھی نہیں ڈوب سکتا، 10 اپریل 1912 کو 24 سال کی عُمر میں جیسوپ ٹائی ٹینک میں بطور سٹیورڈس داخل ہُوئی اور چار دن بعد یہ جہاز ایک آئس برگ سے ٹکرا گیا۔
جہاز آئس برگ سے ٹکرانے کے تقریباً 2 گھنٹے اور 45 منٹ بعد ڈوب گیا، جیسوپ بتاتی ہے کہ "اُسے جہاز کے ڈیک پر بُلا لیا گیا تھا تا کہ وہ ایسے مُسافر جو انگلش نہیں جانتے اُنکو پُرسکون رکھ سکے، وہ دیکھ رہی تھی کہ جہاز کا دیگر عملہ مختلف لائف بوٹس میں بیٹھ کر جہاز جھوڑ رہا ہے مگر اُسے مثال بننے کا کہا گیا تھا”۔
پھر ایک لائف بوٹ نمبر 16 میں جیسوپ کو بھی پُکار کر بُلا لیا گیا اور یوں اس خوفناک جان لیوا حادثے میں جیسوپ کی جان ایک دفعہ پھر بچ گئی۔
تیسرا حادثہ بریٹانینک

پہلی جنگ عظیم میں جیسوپ نے برٹش ریڈ کراس میں بطور سٹیورڈس شمولیت اختیار کی اور 1916 میں ایک بڑے بحری جہاز جسے ہسپتال کی شکل دی گئی تھی تاکہ برطانوی زخمی سپاہیوں کو وطن واپس لیکر جایا جاسکے، مگر یہ جہاز ایک دھماکے کے باعث ڈوب گیا، جہاز میں دھماکہ کس وجہ سے ہُوا یہ راز بعد میں کوئی نہ جان سکا۔
بریٹانینک حادثے کے 55 منٹ بعد ڈوب گیا اور جہاز میں سوار 1066 مُسافروں میں سے 30 کی جان لے ڈُوبا مگر اس حادثے میں بھی جیسوپ کو لائف بورڈ مل گئی اور یُوں بتانے والے نے بتایا کہ مارنے والے سے بچانے والا بڑا ہوتا ہے۔

اس حادثے کے بعد بھی جیسوپ نے اپنی مُلازمت جاری رکھی اور 1950 تک اپنے فرائض بطور خاتون سٹیورڈ سر انجام دیتی رہی پھر ریٹائرمینٹ کے بعد بھی 2 دہائیوں تک زندہ رہی اور 1971 میں ہارٹ فیل ہونے سے 83 سال کی عُمر میں انتقال کیا۔