ٹریفک چالان پر شوہر کو بیوی سے ہاتھ جوڑ کر معافی کیوں مانگنی پڑی نئی سائنس

Posted by

انعام صاحب اپنی بیوی کے سامنے ہاتھ جوڑے سر جھکائے کھڑے تھے کیوں کہ اُن کے پاس اپنی بیوی کے سوال کا کوئی جواب نہ تھا ۔ لاجواب شخص سر جھکانے اور ہاتھ جوڑنے کے علاوہ کر ہی کیا سکتا ہے ۔

میاں انعام کی بیوی انہیں ہمیشہ ایک معصوم اور بھولا بھالا انسان سمجھتی رہی تھی ۔ اُس نے اپنے پورے خاندان اور ملنے جُلنے والوں میں بھی انعام صاحب کو ایک بھولا بھالا اور معصوم شوہر ثابت کر رکھا تھا لیکن انعام صاحب اتنے بھی سیدھے سادھے اور بھولے بھالے نہ تھے جتنا اُن کی بیوی انہیں سمجھتی تھی ۔ بات صرف یہ تھی کہ انعام صاحب کو اپنی “ حرکتیں “ چُھپانے کا فن آتا تھا ۔ اپنی بیوی کی موجودگی میں تو وہ کسی خاتون کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھتے تھے ۔

یہ آج کا ہی واقعہ ہے ۔ انعام صاحب اپنے دفتر جا چکے تھے اُن کی بیوی گھر کا کام کاج کرنے میں مصروف تھی کہ اُن کے گھر کی اطلاعی گھنٹی بجی ۔ بیگم نے دروازہ کھولا تو سامنے ڈاکیا کھڑا تھا ۔ اُس نے انعام صاحب کے نام آنے والا ایک لفافہ اُنکی بیوی کو وصول کروایا تھا ۔ وہ بیوی ہی کیا جس میں شوہر کے حوالے سے تجسس نہ پایا جاتا ہو۔ اسی تجسس کے جزبہ سے مغلوب ہو کر انعام صاحب کی بیوی نے اپنے شوہر کے نام آنے والا پیکٹ کھولا تو اُس میں ٹریفک پولیس کی طرف سے انعام صاحب کی ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر کیا گیا چالان اور جرمانہ کا ووچر تھا جسے تین دن کے اندر بنک میں جمع کروانے کا کہا گیا تھا ۔ چالان کے ساتھ خلاف ورزی کرتے ہوئے انعام صاحب کی تصویر بھی بطور ثبوت لگائی گئی تھی جس میں وہ موٹر سائیکل پر چوک کراس کرتے نظر آ رہے تھے ۔

شام کو انعام صاحب گھر پہنچے تو اُن کی بیوی نے انہیں اس خط کے بارے میں بتایا تو انعام صاحب ادائے بے نیازی سے بولے “ کوئی بات نہیں ۔۔ سڑک پر چلتے ہوئے ٹریفک چالان ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں ہوتی ۔۔ بیگم “چالان کی رقم میں کل ہی بنک میں جمع کروا دوں گا ۔

اُن کی بیوی بولی “ مجھے اس سے کیا ۔۔ تم جانو اور ٹریفک پولیس جانے ۔۔ مجھے تم صرف یہ بتاؤ کہ تمہارے پیچھے موٹر سائیکل پر کون خاتون بیٹھی ہے جس نے تمہاری کمر میں ہاتھ ڈال رکھا ہے” یہ پوچھتے ہوئے اُن کی بیوی نے چالان کے ساتھ آنے والی تصویر انعام صاحب کے سامنے رکھ دی ۔ اس سوال کا انعام صاحب کے پاس کوئی جواب نہ تھا اس لئے وہ سر جھکائے ، ہاتھ جوڑے بیوی کے سامنے بیٹھے اپنے دل ہی دل میں ٹریفک کے جدید کلوز سرکٹ کیمرہ نظام کو کوس رہے تھے۔
(تنویر بیتاب)