ہم ٹی وی سے نشر ہونے والا ڈرامہ پری زاد نہ صرف پاکستان میں مقبولیت کے ریکارڈ توڑ گیا بلکہ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا سمیت ساری دُںیا میں اسے بیحد پسند کیا گیا۔ پری زاد کی کہانی ایک ایسے معصوم اورحساس انسان کی کہانی تھی جسے احمد علی اکبر نے اپنی اداکاری سے دیکھنے والوں کے لیے خوبصورت بنا دیا۔ اگرچہ اس ڈرامے کے سب کردار خوبصورت ادکاری کرتے ہُوئے نظر آئے لیکن نعمان اعجاز کی اداکاری نے ڈرامہ دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیا۔
کہانیاں کردار کی تشکیل کرتی ہیں اور اچھی کہانیاں انسان کے اندر مثبت سوچ کو جنم دیتی ہیں۔ پری زاد کی آخری قسط جہاں بہت سے لوگوں کو بیحد پسند آئی وہاں بعض ناقدین پری زاد ڈرامے کے اس طریقے سے اختتام پر تنقید کرتے بھی دیکھائی دے رہیں ہیں۔
ناقدین پری زاد ڈرامے کو بلا وجہ طویل کرنے پر پہلے بھی ناراض تھے لیکن پری زاد کے اس طریقے سے سب کچھ چھوڑ کر چلے جانے پر اور بھی زیادہ غم و غُصے کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ اُن کے مطابق پری زاد پر جو ذمہ داریاں تھیں انہیں چھوڑ کر راہ فرار اختیار کرنے سے اسکا کردار کمزور ہو گیا۔ میں نے پری زاد پر تنقید کرنے والے ایک بزرگ ناقد سے پوچھا کہ پری زاد کا کردار کیسے کمزور ہو گیا؟ تو اُنہوں نے جواب میں مجھے ایک سیٹھ کی کہانی سُنائی۔
کہانی کا سیٹھ بھی پری زاد کی طرح اپنی دولت اور پیسے سے مطمعن نہیں تھا چنانچہ اپنی مل کو بند کر کے اُس نے فقیری اختیار کی اور فقیری میں بھی بڑا نام پیدا کیا۔ پھر ایک دن فقیری میں اس سیٹھ نے ایک کتے کو دیکھا جو بہت زخمی تھا اور قریب تھا کہ مر جاتا کہ اچانک اور ایک کتا اپنے مُنہ میں ایک گیلا کپڑا لیکر آیا اور اس گیلے کپڑے سے زخمی کتے کی زبان تر کی۔ پھر یہ کُتا واپس گیا اور اپنی مُنہ میں کوئی کھانے کی چیز لیکر آیا اور اس سے زخمی کتے کا پیٹ بھرا۔ سیٹھ کے مطابق وہ کتا کئی دن تک اسی طریقے سے جب زخمی کتے کی تیمارداری کرتا رہا تو زخمی کتا ٹھیک ہو گیا۔
سیٹھ اس ساری کہانی سے بیحد متاثر ہُوا اور اُس نے فقیری کو ترک کر کے دوبارہ اپنا بزنس شروع کیا تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کا روزگار اس سے وابستہ ہو کیونکہ اُسے سمجھ آ گئی تھی کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے ہمیشہ بہتر ہوتا ہے۔
بزرگ کی تنقید واجب تھی کیونکہ پری زاد کا اس طرح راہ فرار اختیار کرنا اور اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑ دینا کسی صُورت بھی مناسب نہیں تھا اور اگر بچوں کی تعلیم کے لیے کچھ کرنا چاہتا تھا تو اپنے مقام پر رہتے ہُوئے وہ اسے بہتر طریقے سے کر سکتا تھا اور اگر وہ دنیا کو ایک لڑکی کی وجہ سے چھوڑ کرجا رہا تھا تو کہانی لکھنے والے کو سوچنا چاہیے تھا کہ اس سے سیکھنے والے کیا سکھیں گے۔
Featured Image Preview Credit: Hum Tv and kskhh, CC BY-SA 4.0, via Wikimedia Commons