پچھلے 13 سالوں میں مختلف حکمرانوں کے دور میں عوام پر چڑھنے والا ائی ایم ایف کا قرض

Posted by

جمہوریت ایک ایسا طرز حکمرانی ہے جس میں حکمران کا انتخاب عوام کرتی ہے۔ وہ حُکمران اچھا ہو یا بُرا اس کی ذمہ دار بھی براہ راست عوام ہوتی ہے کیونکہ اُسی نے اسے منتخب کیا ہوتا ہے لیکن شائد پاکستان کی عوام اس شعور سے آشنا نہیں ہے کیونکہ پچھلے 30 سالوں میں جو حکمران وہ منتخب کر رہی ہے وہ عوام پاکستان کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ چُکے ہیں اور چونکہ عوام نے ہی انہیں منتخب کیا ہے لہذا ذمہ دار عوام ہی ہیں۔

آئی ایم ایف پاکستان کی گروی عوام کیساتھ کیا سلوک کر رہا ہے اس کی ایک جھلک آپ بجلی کے بلز میں دیکھ سکتے ہیں جہاں اگر کوئی صارف 1500 روپئے کی بجلی خرچ کرتا ہے تو اُسے لگ بھگ 16 سو روپیہ مختلف اقسام کے ٹیکس میں ادا کرنا پڑتا ہے اور اُس کا بجلی کا بل دوگُنا سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح کی ایک اور جھلک آپ کو پیٹرول کی قیمتوں میں دیکھائی دے گی جہاں حکومت پیٹرول کو تقریباً 70 سے 80 روپئے فی لیٹر خرید رہی ہے وہاں عوام کو 147 روپئے میں فروخت کر رہی ہے اور ائی ایم ایف کی یہ جھلک صرف پیٹرول اور بجلی کے بلوں تک محدود نہیں ہے بلکہ روز بڑھتی ہُوئی مہنگائی اور حکومت کی طرف سے عوام پر لا تعداد ٹیکسوں کا بوجھ بھی آئی ایم ایف کی شرائط میں شامل ہے۔

عوام پاکستان جو بھی حکمران منتخب کرتی ہے وہ جب بھی عوام کے نام پر آئی ایم ایف سے قرض لیتا ہے تو کبھی بھی اس قرض کی شرائط سے عوام کو مطلع کرنا پسند نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ یہ قرض ایک ایسا پھندا ہے جو دھیرے دھیرے سخت ہوتا جائے گا اور اگر اس پھندے کے متعلق عوام کوسچ سچ بتا دیا گیا تو عوام دوبارہ کبھی اُسے ووٹ نہیں دے گی۔

اس آرٹیکل میں ہم عوام کو آگاہ کریں گے کہ پچھلے 13 سال میں ہر پاکستانی پر مخلتف حکمرانوں کے دور میں کتنا قرض چڑھا ہے تاکہ عوام اس قرض کو اُتارنے کے لیے اپنی حکمت عملی تیار کر سکے اور اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو عنقریب ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ آسان زبان میں اگر بیان کیا جائے تو کسی ملک کے دیوالیہ ہونے کا مطلب بربادی ہے۔ دُوسری جنگ عظیم میں جب برطانیہ دیوالیہ ہونے کے قریب آ چُکا تھا تو کسی نے برطانیہ کے وزیراعظم چرچل سے سوال کیا کہ کیا برطانیہ برباد ہو جائے گا تو چرچل نے اُسے ایک حکمت اور دانائی سے بھرپور جواب دیا اور کہا اگر برطانیہ کی عدالت میں انصاف ہو رہا ہے تو برطانیہ کبھی برباد نہیں ہوگا لیکن اگر یہی سوال آج پاکستان کے کسی حکمران سے کیا جائے تو چرب زبانی اُس کا کبھی ساتھ نہیں دے گی۔

سٹیٹ بنک کی حال ہی میں آنے والی رپورٹ کے مطابق 2008 میں جب عوام پاکستان نے پیپلز پارٹی کو حکمرانی کے لیے منتخب کر لیا تھا اُس وقت ہر پاکستانی پر آئی ایم ایف کا قرض 36 ہزار روپئے تھا پھر جب پیپلز پارٹی کی یہ حکومت ختم ہُوئی تو یہ قرض 36 ہزار سے 86 سے 88 ہزار پر چلا گیا تھا۔ پیپلزپارٹی کے بعد مسلم لیگ نون کا دور حکمرانی شروع ہوا تو ان کے دور کے ختم ہوتے ہوتے سٹیٹ بنک کے مطابق یہ قرض 1 لاکھ 44 ہزار پر چلا گیا اور آج جب تحریک انصاف اپنے 4 سال مکمل کرنے کو ہے تو ہر پاکستانی پر یہ قرض 2 لاکھ 70 ہزار تک پہنچ چُکا ہے اور ابھی قرض لینے کا سلسلہ ختم نہیں ہُوا بلکہ حکمران آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے کے لیے اُن کی شرائط پُوری کرتے جا رہے ہیں اور بیشک اس کے ذمہ دار براہ راست عوام خود ہیں۔

عوام پاکستان اگر آج قرض لیے جانے والی اس رقوم کا حساب نہیں مانگے کی تو آنے والا کل کتنا تاریک اور بھیانک ہو سکتا ہے یہ سب سمجھدار لوگ جانتے ہیں اور عوام پاکستان اگر آج اپنے حکمرانوں کو قرض لینے سے نہیں روکے گی تو یہ پھندا جو پہلے ہی عوام کا سانس بند کر چُکا ہے آنے والے وقت میں اس کی گردن کی ہڈی بھی توڑ دے گا ۔