رُستم زمان گاما پہلوان المشہور گاما دی گریٹ اپنے دور کا ایک ایسا عظیم پہلوان تھا جسے کبھی کوئی بھی اکھاڑے میں شکست نہیں دے پایا، اپنی طاقت اور پہلوانی کے فن سے گاما پہلوان کُشتی کے میدان میں اپنے مخالف کو چند ہی لمحوں میں پچھاڑ دیا کرتا تھا، مخالف پہلوانوں کا گامے سے کُشتی جیتنا ہمیشہ اُن کا ایک ایسا خواب رہا جسے کبھی تعبیر نہیں ملی ، آپ کا تعلق پہلوانوں کہ ایسے خاندان سے تھا جس نے ہمیشہ چیمپیئن پیدا کیے۔
آپ پاکستان اور بھارت کی تقسیم سے پہلے پنجاب کے شہر امرتسر میں پیدا ہُوئے اور پھر انگریزوں سے آزادی کے بعد لاہور چلے آئے اور پھر زندگی کے آخری سانس تک لاہور میں رہے اور 1960 میں لاہور میں انتقال کیا۔
لاہور اور امرتسر میں آپ کی شرافت کی مثالیں دی جاتی تھیں ایک دفعہ آپ امرتسر بازار میں سودا سلف خریدنے گئے سخت گرمی کے دن تھے دوکان دار نے گامے کو نہیں پہچانا اور کسی بات پر جھگڑ کر آپے سے باہر ہوگیا اور آپ کے سر پر بھاری پتھر دے مارا۔
پتھر لگنے سے رُستم زمان پہلوان گامے کاسر پھٹ گیا اور اُس میں سے خون کے دھارے پھوٹ پڑے، یہ منظر دیکھنے والے سمجھے کہ اب اس دوکان دار کی خیر نہیں ہے جس نے دُنیا کے سب سے عظیم پہلوان سے لڑائی مول لے لی ہے مگر اُنہیں یہ دیکھ کر انتہائی حیرت ہُوئی کہ رُستم زمان گاما دی گریٹ نے دُوکان دار کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی نہیں کی بلکے اپنے سر پر کپڑا باندھا تاکہ خون بہنا بند ہو اور خاموشی سے واپس لوٹ گئے۔
لوگ جو دُوکان دار کی درگت بننے کے انتظار میں تھے اُنہوں نے حیرانی سے واپس لوٹتے ہُوئے پہلوان سے پُوچھا ” اُس دوکان دار نے آپ کا سر پھاڑ دیا اور آپ نے اتنے بڑے پہلوان ہونے کے باوجود اُسے کچھ بھی نہیں کہا اور کوئی بدلہ نہیں لیا؟”۔
لوگوں کے سوال کے جواب میں گامے نے تاریخی الفاظ ادا کیے اور بولا ” مُجھے پہلوان میری طاقت نے نہیں بنایا اور رُستم زمان کا مقام میں نے اپنی برداشت سے حاصل کیا ہے”۔
Image Preview Credit: WIKIMEIDACOMMONS