پہلی مُحبت جسے آج تک کوئی نہیں سمجھ پایا

Posted by

اللہ تعالٰی نے انسان کو جوڑوں میں پیدا کیا ہے اور مُحبت ان جوڑوں کے درمیان اُس احساس کا نام ہے جو ان جوڑوں کو آپس میں اس مضبوطی سے جوڑ دیتا کہ پھر وہ کبھی بھی ٹوٹ نہیں پاتے چاہے وصل میسر ہو یا جُدائی مقدر ہو۔

میرا نام آمنہ سُلطان ہے اور میں ایک ڈاکٹر ہُوں اور 4 بچوں کی ماں ہُوں لیکن میرا شوہر میری پہلی مُحبت نہیں ہے مگر یہ بات میں نے اُسے آج تک نہیں بتائی کیونکہ وہ میری بات کو سمجھ نہیں پائے گا ، اکثر بزرگ بھی پہلی مُحبت کو نادانی، بچپن اور بھول قر ار دیتے ہیں حالانکہ وہ جانتے ہیں کے احساس کا یہ رشتہ اب کبھی ختم نہیں ہوگا۔

ابتدا

یہ میرے کالج کے دنوں کی بات ہے اور میرا ایم بی بی ایس کا دُوسرا سال شروع ہُوا تھا گھر میں بھائی کی شادی تھی اور میں شادی میں بھرپُور شرکت کے لیے کالج سے کئی دن غیر حاضر رہی اور جب کلاس میں پہنچی تو پتہ چلا کے کلاس بہت آگے جاچُکی ہے اور میں بہت پیچھے رہ گئی ہُوں، ایک دن سرجری کی کلاس میں پروفیسر نے مُجھے کھڑا کرکے پُوچھا “How can obesity effect anesthesia?”.
میں موٹاپے سے لاحق ہونے والی بہت سی بیماریوں کے متعلق پڑھ چُکی تھی مگر Anesthesia کی کلاسیز بھائی کی شادی کی وجہ سے نہیں پڑھ سکی اور یہ بات میں نے پروفیسر کو بتائی تو وہ بولے "جس مریض کو Anesthesia دینا ہو یہ باتیں اُس کو ضرور بتا دینا تاکہ وہ اپنے آخری کلمات ادا کر کے کبھی نہ ہوش میں آنے کے لیے بے ہوش ہوجائے”، پروفیسر صاحب کی بات پر کلاس میں ایک زور دار قہقہ لگا اور میں اپنی جگہ کھڑی لال پیلی ہوگئی۔

اگلے دن میرے ٹیبل کے اوپر ایک نوٹ پڑا تھا جس پر لکھا تھا "ایک ڈاکٹر کو زیب نہیں دیتا کہ اپنی تعلیم پر سوسائٹی کی کسی بھی چیز کو فوقیت دے میری بات میں اگر طنز کا نشتر نہ محسوس کریں اور آپ کی انا آپ کے آڑے نہ آئے تو میں کنٹین میں ٹیبل نمبر 4 پر بیٹھا آپ کا انتظار کر رہا ہُوں اگر ایک کپ چائے پلانے کے پیسے جیب میں ہوں تو تشریف لے آئیں میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں”۔

مُجحے انتہائی غُصہ آیا کہ کون ہے یہ بدتمیز اور اس کی اتنی ہمت کہ میری مدد کرے میں اسے ایک منٹ میں سیدھا کردوں گی یہ سوچ کر میں کینٹین میں ٹیبل نمبر 4 پر پہنچی جہاں کلاس کا سب سے لائق لڑکا منصور علی بیٹھا تھا میں اُس کے سر پر پہنچی اور غُرا کر بولی ” تمہاری اتنی جُرات کے مُجھے نوٹ لکھو تُم ہوتے کون ہو میری مدد کرنے والے؟”۔

شناسائی

میری بات سُن کر منصور علی کھڑا ہُوا اور اُس نے میری بازو کو اپنے شکنجے جیسے ہاتھ میں جکڑا اور مُجھے کُرسی پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا میرے ساتھ ایسی زور زبردستی آج تک کسی نے نہیں کی تھی اور میں ہکا بکا تھی کہ یہ کینٹین میں کیا کر رہا ہے، پھر وہ بڑے اطمینان سے بولا "ڈاکٹر بننے کے لیے اپنی نسوانیت گھر پر چھوڑ کر آیا کرو میں نے تمہارے لیے کُچھ نوٹس لکھے ہیں یہ کل فوٹو کاپی کروا کر مُجھے واپس کر دینا، میں نہیں چاہتا کل کو کوئی منصور علی سے یہ کہے کہ تُمہاری کلاس فیلو نے ہمارے مریض کو Anesthesia دیکر ہلاک کردیا”، یہ کہہ کر وہ کنٹین سے چلا گیا اور میں ابھی سکتے میں تھی کے میرے کاندھے پر میری کلاس فیلو سہیلی نے ہاتھ رکھا اور بولی "کیا ہُوا آمنہ؟”۔

میں سکتے سے باہر آئی اور اُسے ساری سٹوری سُنائی جسے سُن کر اُس نے کہا ” کلاس میں پروفیسرصاحب کے ہاتھوں ذلیل ہونے سے اور فیل ہونے کی ذلت سے بچنے کے لیے بہتر ہے کہ تُم یہ نوٹس پڑھ لو، منصور علی کلاس کا بیسٹ سٹوڈنٹ ہے اور پھر مُسکرا کر بولی :”علم مومن کی گُمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے لے لو” ۔

بات میری سمجھ میں آگئی اور میں نے نوٹس اُٹھا لیے گھر جاکر اُن کا مطالعہ کیا تو سمجھ آئی کہ اللہ نے کُچھ لوگوں کو واقعی حیرت انگیز صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے بہت سی باتیں جو شائد پروفیسر صاحب بھی نہیں سمجھا پاتے انتہائی مختصر اور آسان فہم میں لکھی تھیں اگلے دن نوٹس فوٹو کاپی کروائے اور منصور علی کو واپس کرنے گئی اور نوٹس کے اوپر شکریہ کے ساتھ ایک نوٹ لکھ دیا ” کُچھ لوگ اپنے آپ کو بہت عالم فاضل سمجھتے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ وہ ہوں بھی مگر جب تک اُنہیں لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں اُن کا علم ادھورا ہے”۔

اگلے دن میری ٹیبل پر نوٹ لکھا پڑا تھا ” میں تمیز سیکھنے کے لیے کینٹین میں بیٹھا انتظار کر رہا ہوں اگر تمہاری جیب میں پیسے ہیں تو ایک کپ جائے پلاؤ اور اپنے علم کا پرچار کرنے آجاؤ تاکہ کل کوئی تمہارے کلاس فیلو منصور علی سے یہ نہ کہے کے کسی نے اُسے لڑکیوں سے بات کرنے کی تمیز نہیں سیکھائی”۔

دوستی

اور یوں میری اور منصور علی کی دوستی کا آغاز ہُوا چند ہی مُلاقاتوں کے بعد مُجھے احساس ہوگیا کہ منصور علی کوئی عام انسان نہیں ہے اور میرا دل اُس کی طرف کھنچتا چلا جا رہا ہے میں کالج وقت سے پہلے پہنچتی اور گیٹ پر کھڑی ہوکر اُس کا انتظار کرتی، وہ آتا اور کلاس شروع ہونے سے پہلے مُجھے ہونے والی کلاس پر لیکچر دیتا اور میرا شمار کلاس کے ذہین طالبعلوں میں ہونا شروع ہوگیا۔

میں وہ دن کبھی نہیں بھولوں گی میرے دل کی عجیب حالت ہوتی تھی اور پہلی مُحبت میں سب کیساتھ ایسا ہی ہوتا ہے پھر ایک دن منصور علی آیا اُس کے ہاتھ میں گُلاب کے پھول تھے اور ایک کارڈ تھا وہ پھول اور کارڈ مُجھے دیکر کلاس میں چلا گیا، میں نے دھڑکتے دل کیساتھ کارڈ کھولا جس پرلکھا تھا ” میں لڑکیوں سے بات کرنا ابھی سیکھ رہا ہُوں اس لیے گُلاب کے پھولوں کو ترجمان کے طور پر بھیجا ہے اگر تُم انہیں قبول کر لو گی تو آج سے چائے کے پیسے میں دیا کروں گا”۔

محبت

میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور میں نے اپنی زندگی میں آسمان کو ایسا خُوبصورت پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا دل کی دھڑکن اتنی تیز ہُوئی کہ میں نے دیوار کا سہارا لینے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو کسی نے میرا ہاتھ پکڑ لیا میں نے دیکھا تو وہ منصور علی تھا میرا ہاتھ پکڑ کر وہ بولا ” ایک ڈاکٹر کے دل کی دھڑکن کسی صورت میں بے قابو نہیں ہونی چاہیے وگرنہ مریض کی جان خطرے میں پڑ جائے گی”۔

اگلے دن کالج میں گرمیوں کی چُھٹیاں ہوئیں یہ وہ دن تھے جب موبائل اور انٹرنیٹ نہیں ہوتا تھا اور فون بھی کسی کسی گھر میں ہوتا تھا، میں دل میں ایک انتہائی خُوبصورت احساس کے ساتھ گھر آگئی پھر گھر میں کزن آگئے اورہم لوگ ہلے غلے میں اتنا مصروف ہُوئے کے چھٹیوں کا پتہ ہی نہیں چلا، کالج کے پہلے دن میں انتہائی بے تابی سے تیار ہُوئی اوروقت سے پہلے کالج پہنچی اور منصور کا انتظار کرتی رہی مگر پہلے دن وہ نہیں آیا، پھر وہ دوسرے دن بھی نہیں آیا، تیسرے دن میرا اضطراب بڑھا اور میں اپنی سہیلی کیساتھ منصور کے گھر پہنچی تو پتہ چلا کے منصور کو برطانیہ میں کنگز میری کالج میں سکالر شپ مل گیا تھا اس لیے وہ ایک ماہ پہلے برطانیہ روانہ ہوگیا تھا، منصور کے چھوٹے بھائی نے مُجھے کُچھ نوٹس دیتے ہوئے کہا کہ بھائی آپ کے لیے یہ نوٹس چھوڑ گئے ہیں اُنہوں نے کہا تھا آپ لینے آئیں گی۔

میں نے گھر آکر نوٹس کھولے تو اندر ایک صفحے پر ایک تحریر تھی ” مُجھے پتہ ہے تمہیں اچھا نہیں لگے گا مگر مُجھے یقین ہے کہ ایک دن تُم میری بات کو سمجھ جاؤ گی کیونکہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ مُحبت میں وصل اور جُدائی معنی نہیں رکھتے اللہ نے میرے اوپر کُچھ ذمہ داریاں لگائی ہیں میں اُن کی تکمیل کے لیے جارہا ہُوں کیونکہ میں ایک ڈاکٹر ہُوں اور اب شائد مُجھے وصل کے لیے دوبارہ وقت نہ ملے”۔

میں نے نوٹس دیوار پر دے مارے اور رو دھو کر آخر چُپ کر گئی ایم بی بی ایس مکمل ہُوا اور گھر والوں نے شادی کر دی کئی سال گُزر گئے میرا شُمار شہر کی مشہور گائناکالوجسٹ میں ہونے لگا سینکڑوں خواتین میرے کلینک پر روزانہ آتیں اور میرے علاج سے صحت یاب ہوتیں، اللہ نے مُجھے ہر طرح کی نعمت اور عزت عطا کی مُجھے اپنے شوہر اور بچوں سے بے پناہ پیار ہے اور وہ بھی مُجھ سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں مگر میں منصور علی کو کبھی بھی نہ بھول پائی وہ میرے محسنوں میں سے ایک تھا جس نے میری تعلیم میں اور کردار کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا اور مُجھے اُن باتوں کی سمجھ عطا کی جس سے میں آج ایک کامیاب ڈاکٹر ہوں ایک ماں ہوں اور ایک مضبوط رشتہ ازواج میں منسلک ہوں اور معاشرے میں میری ایک عزت ہے۔

زندگی اور مقاصد

کل میں نے بی بی سی پر منصور علی کو دیکھا وہ دماغ کے خلیوں پر اُس کی نئی ریسرچ جس نے میڈیکل سائنس کی تاریخ کو بدل دیا تھا پر اُس کا انٹرویو کر رہے تھے انٹرویو کے آخر میں انٹریور نے منصور علی سے سوال کیا ” آپ نے ساری زندگی شادی نہیں کی کیا آپ کو کبھی محبت نہیں ہُوئی”، انٹرویور کا سوال سُن کر وہ کُچھ دیر گہری نظروں سے کیمرے کے طرف دیکھتا رہا پھر بولا ” میری محبت کو پتہ ہے کہ مُجھے ابھی بہت کام کرنا ہے”۔