پہلی ڈیٹ، لانگ ڈرائیو، اورLove in Pakistan کاانجام

Posted by

کاشف بہت خوش تھا وہ آئینے کے سامنےاپنے بال سنوارتے ہوئے گنگنا رہا تھا”ہمیں آرزو تھی جس کی وہ پیام آگیا ہے:”۔جی ہاں ! اسے اپنی محبوبہ دل نواز رومانہ کی طرف سے ملاقات کا بلاوا جو آگیا تھا ۔ رومانہ سے اس کا رابطہ فیس بک پر ہی ہوا تھا۔ کاشف ایک اچھا شاعر تھا اور وہ اکثر اپنی رومانوی غزلیں فیس بک پر شئیر کرتا رہتا تھا۔ رومانہ کو بھی رومانوی شاعری سے گویا عشق تھا۔ وہ کاشف کی غزلیں بڑے شوق سے پڑھتی تھی اور اکثر اس پر داد بھی دیتی تھی اور کاشف اس کا شکریہ ادا کر دیتا تھا ۔

یہی رابطہ پھر فیس بک کی دوستی میں تبدیل ہوا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ فیس بک پر گھنٹوں بات چیت کرتے، ایک دوسرے پر اعتماد بڑھا تو دونوں نے ایک دوسرے کو اپنے اپنے فون نمبرز بھی دے دئیے۔ اب ان کے درمیان فون پر بات بھی ہونے لگی۔ ان کے درمیان گھنٹوں فون پر ہونے والی رومانوی گفتگو نے جلد ہی اس دوستی کو گہری محبت میں تبدیل کر دیا ۔ کاشف کی بڑی شدید خواہش تھی کہ وہ دونوں “ فیس ٹو فیس” ملیں مگر رومانہ ایسی ملاقات سے ہمیشہ گریز کرتی رہی اور مختلف حیلوں بہانوں سے اسے ٹالتی رہی۔

پھر ایک دن اچانک رومانہ کی فون کال آئی اور اس نے بتایا کہ اس کے گھر والے اب اس کی شادی کرنا چاہتے ہیں ۔ گھر والوں نے اس کے لئے رشتہ تلاش کرنا شروع کردیا ہے۔ اس خبر نے کاشف کو پریشان کر دیا۔اس نے ایک بار پھر رومانہ سے ملاقات کی درخواست کی تا کہ وہ دن مل کر آپس میں شادی کی تجویز پر غور کر سکیں ، مگر رومانہ شائد اپنے والدین سے بہت زیادہ ڈرتی تھی اُس نے کاشف سے کہا کہ کُچھ دن صبر کرو اور پھر ایک دن رومانہ نےکاشف کوملاقات کا وقت دے دیااور اب وہ اسی ملاقات پر جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا۔

وہ گھر سے نکلا ہی تھا کہ رومانہ کا فون آگیا اس نے کاشف کو ایک معروف بیکری پر آنے کا کہا۔ اگلے چند منٹ بعد ہی کاشف اس بیکری پر رومانہ کے سامنے تھا۔انہوں نے وہاں سے کھانے پینے کی کچھ اشیاء لیں اور لانگ ڈرائیو پر نکل پڑے۔کینال روڑ پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھا۔ایک طرف بہتی ہوئ نہر دوسری طرف لہلہاتے کھیت۔

ان دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔وہ ارد گرد کے مناظر سے بےخبرایک دوسرے میں گم تھے۔اچانک ڈرائیونگ سیٹ کی طرف کی کھڑکی کا شیشہ کھٹکھٹایا گیا۔ان دونوں نے چونک کر ادھر دیکھا تو انہیں ایک پستول نظر آیا ۔پستول بردار نقاب پوش نے گاڑی روکنے کا اشارہ کیا۔کاشف نے فورا ہی گاڑی روک لی۔

گاڑی رکتے ہی نقاب پوش نوجوان نے ان پر پستول تان لیا۔اس کے ساتھی نے موٹر سائیکل گاڑی کے بلکل آگے کھڑی کر دی اور پھرتی سے رومانہ کی طرف والی کھڑکی کے پاس پہنچ گیا۔پستول بردار نوجوان نے پستول کے اشارے سے شیشہ نیچے کرنے کا اشارہ کیا۔کاشف نے جھٹ اس کی ہدایت پر عمل کیا۔کاشف اور رومانہ کی تو ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔دونوں ڈاکوؤں نے نہایت تیزی سے دونوں کی تلاشی لی اور ان کی تمام تر نقدی اپنے قبضے میں لے لی۔گاڑی کی تلاشی کے دوران ان کے ہاتھ وہ ایک لاکھ بیس ہزار کی رقم بھی لگ گئ جو کاشف کی اپنی نہ تھی بلکہ اس کمپنی کی تھی جس میں وہ ملازم تھا۔

اگلے ہی لمحے ڈاکو اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر فرار ہو گئے۔کچھ دیر کے لئے تو کاشف اور رومانہ گنگ ہو کر بیٹھے رہے۔پھررومانہ اچانک چلائی ! اف ۔۔یہ کیا ہو گیا؟ کاشف ! 15 پر کال کرو۔ کاشف نے کال کرنے کے لئے فون اٹھایا۔۔مگر اگلے ہی لمحے واپس رکھ دیا اور رومانہ سےمخاطب ہوا” نہیں رومانہ۔۔ہم لوگ پولیس کو یہاں نہیں بلا سکتے۔

پولیس آئے گی تووہ بال کی کھال اتارے گی۔ہم دونوں کون ہیں؟ ہمارا آپس میں کیا رشتہ ہے؟ ہم کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں ؟ ہم نے سفر کے لئے اس ویران سڑک کو کیوں چنا؟اور ان باتوں کا ہمارے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔پولیس کیس بننے کی صورت میں معاملہ میڈیا پر بھی آ سکتا ہے۔

بات رومانہ کی سمجھ میں آگئی اور اُس نے کاشف کی ہاں میں ہاں ملائی تو کاشف نے گاڑی کو دوبارہ سٹارٹ کیا اور ابھی گیئر لگایا ہی تھا کہ گاڑی کا شیشہ پھر کھٹکا، دونوں نے خوفزدہ انداز میں کھڑکی کی طرف دیکھا تو دو موٹر سائیکلوں پر 4 پولیس والے اُن کی گاڑی کو گھیر کر کھڑے تھے، دونوں کے اوسان خطا ہوگئے ، کاشف نے کانپتے ہاتھوں کے ساتھ گاڑی کا شیشہ نیچے کیا تو پولیس والا بولا ” کیوں بھئی کاکا بلی کیا چل رہا ہے سڑک کے درمیان گاڑی کھڑی کر کے اور یہ لڑکی کون ہے؟”۔

کاشف نے بڑی مُشکل سے گلے میں ڈوبتی آواز کو باہر نکالا اور بولا کُچھ نہیں جی دوست ہے میری ۔ پولیس والامونچھوں کو تاؤ دیکر بولا ” اچھا جی دوست ہے اور سڑک کے درمیان گاڑی کھڑی کر کے رومانس چل رہا ہے ، گاڑی سائیڈ پر لگاؤ اور نیچے اُترو دونوں گاڑی کی تلاشی ہوگی”۔

کاشف اور رومانہ نے ایک دوسرے کے چہرے کی طرف دیکھا پھر کاشف نے کڑوا گھونٹ گلے سے اُتارا اور گاڑی کو سائیڈ پر لگا کر دونوں باہر نکل آئے، ایک پولیس والا گاڑی کی تلاشی لینے لگا اور دُوسرے نے کاشف اور رمانہ سے کہا دونوں اپنا پتہ لکھاؤ ،رومانہ گھبرا کر بولی ” پتہ کیوں بتائیں”۔

پولیس والے نے جواب دیا” پتہ تو بتانا پڑے گا تا کہ تمہارے والدین کو خبر کی جاسکے کے دونوں دوست گاڑی کو بیچ سڑک میں پارک کرکے رومانس فرما رہے تھے تاکہ وہ تُم دونوں کا علاج کریں”۔

رومانہ کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور اُس نے گھبرا کر کاشف کی طرف دیکھا تو کاشف نے اُس سے کہا گھبراؤ نہیں میں کُچھ کرتا ہُوں، پھر کاشف گاڑی میں گیا اور گاڑی کی سن شیلڈ کے نیچے سے پانچ ہزار کا ایک نوٹ جو اُس نے مشکل وقت کے لیے رکھا ہُوا تھا نکال کر لایا اور پولیس والوں کو دیکر بولا ” خُدا کے لیے ہمیں جانے دیں ورنہ ہمارے گھر والے آج ہی ہماری قیامت کر دیں گے”۔

پولیس والے نے پیسے لیکر جیب میں ڈالے اور مُسکراتے ہُوئے بولا ” ایک منٹ میں یہاں سے نکل جاؤ اور دوبارہ تم دونوں ادھر نظر آئے تو چھوڑوں گا نہیں”۔

لانگ ڈرائیو کا مزہ کر کرا ہو چکا تھا۔کاشف نے فوراً گاڑی سٹارٹ کی اور جہاں سے رومانہ کو پک کیا تھا وہیں پر جاکر اُتارا اور بولا آج تو سب کام خراب ہوگئے ہیں رومانہ ابھی میں جاتا ہُوں پھر دوبارہ ملتے ہیں انشااللہ۔

رومانہ نے گلوگیر لہجے میں کاشف سے کہا، ” کاشف ہم دوبارہ نہیں مل سکتے پرسوں میری شادی ہے اور میں یہی بتانے کے لیے تم سے آخری دفعہ ملنے آئی تھی” یہ کہہ کر رومانہ تیزی سے گاڑی سے نکلی اور ایک رکشے میں بیٹھ کر چلی گئی۔

کاشف کو دُور سے آتی ایک ایمبولینس کے سائرن کی آواز سُنائی دے رہی تھی مگر یہ ایمبولینس کاشف کے لیے نہیں تھی ، اُسے اپنی مُردہ لاش کو خُود ہی اُٹھانا تھا چنانچہ اُس نے صبر کے کڑوے گھونٹ حلق سے نیچے اُتارے اور اس سے پہلے کہ اُس کی آنکھوں پر مکمل تاریکی چھا جاتی اُس نے گاڑی کو موڑا اور جہاں سے تیار ہوکر آیا تھا اُسی راستے پر واپس چل دیا۔
(تنویر بیتاب)