عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ پیار اور محبت ایک ہی چیز کا نام ہے اور اگر کوئی ان میں حد سے باہر ہو جائے تو اُسے عشق کہہ دیا جاتا ہے، حالانکہ چاہت کے یہ تینوں مقام ایک دوسرے سے بہت مختلف اور بلکل علیحدہ علیحدہ ہیں اور آپس میں ان کی دُور دُور تک کوئی مماثلت نہیں۔
اس آرٹیکل میں ہم ان تینوں حالتوں کا علیحدہ علیحدہ ذکر کریں گے تاکہ ہمیں پہچان میں آسانی ہو اورہم چاہت کے ان تینوں مقامات کو ایک ہی حالت کا نام نہ دیں
نمبر 1 پیار
چاہت کا یہ پہلا درجہ ہے اور لوگ عام طور پر اسی کا شکار ہوتے ہیں، اضطراب اور پالینے کی شدید طلب اسی درجے کے متاثرین کے اندر پیدا ہوتی ہے اور زوال بھی چاہت کے صرف اسی درجے پر آتا ہے۔
کسی انسان یا کسی بھی دلربا چیز سے پیار ہوجانا ایک عام سی بات ہے اور پیار ہونے کے بعد اگر وہ چیز یا انسان میسر آجائے تو چند دن میں یہ پیار ختم ہوجاتا ہے اور اگر میسر نہ ہو تو اضطراب کی حالت ظاہر ہوتی ہے مگر یہ اضطراب بھی وقت کیساتھ ختم ہوجاتا ہے، مثال کے طور پر کسی بچے کو کسی کھلونے سے پیار ہوگیا تو وہ اپنا سارا وقت اُس کھلونے سے بتاتا نظر آئے گا مگر چند دن بعد وہی کھلونا گھر کے کسی کونے میں ٹوٹا ہوا بکھرا ہُوا پڑا ہوگا اور بچہ کسی اور کھلونے سے دل بہلا رہا ہوگا۔
چڑھتی جوانی کیساتھ لڑکا لڑکی کو آپس میں پیار ہوگیا، اور چند دن کی رفاقت کے بعد دونوں کو احساس ہُوا کہ اب دونوں کا دل ایک دوسرے کے ساتھ نہیں لگتا اور پھر دونوں علیحدہ ہوگئے اور الزام محبت کو دے دیا حالانکہ محبت پر زوال نہیں ہے۔
پیار اُس چاہت کا نام ہے جو پُوری ہوجانے کے کُچھ عرصے بعد ختم ہوجاتی ہے اور انسان دوسری چیزوں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ، بقول شاعر ” مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے”۔
نمبر 2 محبت
دلوں کو سکون دینے والا چاہت کا یہ درجہ کبھی زوال پذیر نہیں ہوتا یہ درجہ اضطراب کا شکار بھی نہیں ہوتا وصل ہو یا جُدائی اس درجے میں کمی واقع نہیں ہوتی، محبت وہ تحفہ ہے جو اللہ خاص دلوں کو خود عطا کرتا ہے جیسے پیدا ہونے والے بچے کے متعلق محبت اُس کے ماں اور باپ کے دل میں اللہ خود ڈالتا ہے اور پھر اس محبت میں کمی واقع نہیں ہوتی، بچہ چاہے بہت سمجھدار ہو یا چاہے دیوانہ ہو ماں باپ اُسے سینے سے لگا کر رکھتے ہیں۔
محبت میں محبوب چاہے ہرجائی ہو یہ ختم نہیں ہوتی اور انتقام نہیں لیتی چاہے کُچل دینے کی طاقت رکھتی ہو، اللہ نے محبت میں خیر ہی خیر رکھی ہے اورجن دلوں کو یہ نصیب ہوجائے وہ دُنیا کے سب سے قیمتی دل بن جاتے ہیں۔
بقول علامہ اقبال ” محبت کے دل ڈھونڈ کوئی ٹُوٹنے والا، نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزینوں میں”۔
نمبر 3 عشق
انسان کو ریاضت کی منزلیں طے کرتے صدیاں گُزر جاتی ہیں اور پھر لاکھوں کروڑں دلوں میں سے کسی ایک دل کو عشق کی منزل نصیب ہوتی ہے، اور جسے یہ مل جاتا ہے اُسے اور کسی چیز کی حاجت نہیں رہتی کیونکہ عشق میں وجود کی جُدائی نہیں ہے عشق وصال ہی وصال ہے ۔
عام لوگ عشق کرنے والوں کو عام طور پر دیوانہ خیال کرتے ہیں کیونکہ اُن کی ہر ادا مختلف ہوتی ہے، وہ دیکھنے کے لیے آنکھوں کو بند کرلیتے ہیں اور عقل کے کسی پیمانے پر پُورا نہیں اُترتے بقول ڈاکٹر اقبال ” بے خطر کُود پڑا آتش نمرود میں عشق، عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی”۔
عشق اگر کام سے ہوجائے تو آئن سٹائن، تھامس ایڈیسن، جیسے بڑے بڑے سائنسدان پیدا ہوتے ہیں اور اگر کسی انسان سے ہوجائے تو قیس اور لیلی کی عظیم داستانیں جنم لیتی ہیں اور اگر رحمن سے ہوجائے تو بقول شاعر”آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا، آگ کرسکتی ہے انداز گُلستاں پیدا”۔
(زبیر رشید مرزا)