ڈاکٹر صاحب فارغ بیٹھے ہیں مٹر ہی نکال دیں

Posted by

ڈاکٹر صاحب بڑے اطمینان سے گھر بیٹھے ٹی وی دیکھ رہے تھے ۔ اچانک اُن کی زوجہ محترمہ اُن کے پاس آئیں ، اپنے ہاتھ میں پکڑی مٹروں سے بھری ٹوکری اور ایک عدد خالی ٹرے ڈاکٹر صاحب کے سامنے پڑے میز پر رکھتے ہوئے بولیں “ ٹی وی دیکھتے ہوئے ساتھ ساتھ یہ مٹر بھی نکالتے جائیں “ .

ڈاکٹر صاحب نے بے بسی سے نظر اُٹھا کر اپنی بیوی کی طرف دیکھا تو وہ دوبارہ اُن سے مخاطب ہوئیں “ ڈاکٹر صاحب ! یہ تو کوئ مُشکل کام نہیں ہے “ 52 سالہ ڈاکٹر صاحب پی ایچ ڈی ڈاکٹر تھے ۔ وہ ایک مقامی کالج میں پرنسپل لگے ہوئے تھے ۔

ماہر تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب مُلک کے معروف شاعر ، ادیب ، محقق اور دانشور بھی تھے ۔ انہوں نے پُوری زندگی انتہائ مصروف گزاری۔ صبح ہی صبح کالج چلے جاتے ، کالج سے واپس آکر کُچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہی وہ دوبارہ گھر سے روانہ ہوجاتے ۔ مختلف علمی ادبی تقریبات میں شرکت ، ریڈیو اور ٹی وی کے لئے پروگراموں کی ریکارذنگز ، آرٹس کونسل کی میٹنگز اور شام کے بعد بڑی باقاعدگی سے ایک ہوٹل کی لابی میں بیٹھنا اُن کی مصروفیات تھیں ۔

گھر میں بیوی اور بچوں کو وہ کبھی بھی مناسب وقت نہ دے سکے تھے مگر گزشتہ ایک ماہ سے وہ مُلک بھر میں کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے لئے لگائے گئے حکومتی لاک ڈاؤن کی وجہ سے گھر پر رہنے پر مجبور تھے ۔ تمام تعلیمی اداروں کی طرح اُن کا کالج بھی بند تھا۔ ہر طرح کی علمی ادبی ثقافتی سرگرمیاں بند تھیں ۔ شادی تک کی تقریبات پر پابندی تھی ۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کے لئے چار یا چار سے زائد افراد کے کسی بھی جگہ جمع ہونے پر پابندی تھی ۔

انتہائ ضروری کام کے علاوہ کسی کو بھی گھر باہر نکلنے کی اجازت نہ تھی۔ ایسے ڈاکٹر صاحب جاتے تو کہاں جاتے ۔ چار و ناچار گھر میں وہ بھی اپنی بیوی کے چُنگل میں پھنسے ہوئے تھے ۔ اس لاک ڈاؤن کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ کُچھ علمی و ادبی کام کرنا چاہتے تھے مگر وہ ایسا نہ کر سکے تھے ۔ ایک دن وہ کاغذ و قلم لے کر کُچھ لکھنے کے لئے بیٹھے ہی تھے گھر کی کال بیل بج اُٹھی تھی ۔

اپنی بیوی کے کہنے پر وہ اُٹھ کر باہر دیکھنے گئے تھے کہ کون ہے ؟ دُودھ والا دُودھ دینے آیا تھا ۔ بیگم صاحبہ کا ارشاد ہوا ڈلوا لیجیئے ۔ وہ دودھ ڈلوا کر واپس آئے تو برتن سے دودھ چھلک رہا تھا جسے دیکھتے ہی بیوی چلائ “ ڈاکٹر صاحب ! آپ نے زندگی بھر لکھنے پڑھنے کے علاوہ بھی کوئ کام سیکھ لیا ہوتا “ ڈاکٹر صاحب ! ایک بار پھر سے لکھنے بیٹھے ، خیالات کو مجتمع کیا ، ابھی چند سطریں ہی لکھی تھیں کہ گھر کے باہر سبزی فروش آن پہنچا ۔

اُس کی صدا سُنتے ہی ڈاکٹر صاحب کی بیگم نے انہیں دور سے ہی پکار کر کہا “ ڈاکٹر صاحب ! اُٹھ کر پہلے سبزی لے لیں “ ڈاکٹر صاحب جو سبزی خرید فرمائ اُس میں اُن کی بیوی دس نقص نکال دئیے تھے ۔ ڈاکٹر صاحب ایک بار پھر رائٹنگ ٹیبل پر آ بیٹھے تھے ۔ ابھی چند صفحے ہی لکھے ہوں گے کہ اُن کی بیگم صاحبہ انہیں ایک بار پھر پُکارا وہ اُٹھ کر گئے تو بیگم بولی “ ڈاکٹر صاحب ! میں پکڑاتی جاتی ہوں اور آپ یہ کپڑے تار پر ڈالتے جائیں ، میرا تو تار تک ہاتھ ہی نہیں پہنچ رہا “.

ایسا کُچھ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ گزشتہ مہینہ بھر سے ہو رہا تھا ۔ ایک مہینے میں ہی اُن کی بیوی نے اُن سے گھر کا تقریباً ہر کام ہی کروا لیا تھا۔ کام تو کام رہا گھر میں آرام بھی تو میسر نہ تھا ۔ ڈاکٹر صاحب ٹی وی لانج میں بیٹھ کر ٹی وی دیکھ رہے ہوتے تو بیگم کہتی تھی “ زرا اُٹھ کر ڈرائنگ روم میں ہو جائیں مجھے یہاں صفائ کرنی ہے “ جب وہ ڈرائنگ روم بیٹھے اخبار پڑھ رہے ہوتے تو بیگم کا ارشاد ہوتا “ آپ زرا بیڈ روم میں چلے جائیں میں ادھر ڈسٹنگ کر دوں “ ڈاکٹر صاحب بیڈ روم میں سوئے ہوتے تو اُن کے نیچے سے بیڈ کی چادر کھینچی جا رہی ہوتی تھی کہ آج واشنگ مشین لگائ ہوئ ہے ۔

ڈاکٹر صاحب اس ساری صورت حال سے تنگ آچُکے تھے۔ انہیں کُچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کریں ؟ اب مٹر نکالنے کے ساتھ ساتھ وہ اس صورت حال سے نکلنے کا حل بھی سوچ رہے تھے۔
اگلے ہی دن اچانک اُن کے گھر کے باہر ایک ایمبولینس آ کر رُکی اور اُن کے گھر کی بیل بجائ ڈاکٹر صاحب کی بیگم نے گیٹ پر آ کر پوچھا تو انہیں بتایا گیا کہ وہ لوگ ڈاکٹر صاحب کو قرنطینہ مرکز لے جانے کے لئے آئے ہیں انہیں ہیلپ لائن پر شکایت موصول ہوئ ہے ڈاکٹر کرونا کے مشکوک مریض ہے۔

بیگم یہ سُن کر گبھرا گئیں وہ ڈاکٹر صاحب کو یہ بات بتانے کے لئے اندر آئیں تو ڈاکٹر صاحب کپڑے تبدیل کر کے قرنطینہ مرکز جانے کے لئے تیار تھے۔ وہ اُٹھے ، اپنا بیگ اُٹھایا اور بڑے اطمینان سے ایمبولینس میں بیٹھ کر قرنطینہ مرکز چلے گئے ۔ ڈاکٹر صاحب کی بیگم کو کُچھ سمجھ نہیں آرہی تھی ۔ انہیں ڈاکٹر صاحب کے اطمینان پر حیرت ہو رہی تھی ۔ اچانک گھر کے پی ٹی سی ایل فون کی گھنٹی بجی ۔ بیگم صاحبہ نے فون اُٹھایا تو دوسری طرف کرونا ہیلپ لائن والے تھے وہ پوچھ رہے تھے کہ اس ٹیلی فون نمبر سے کرونا کے جس مشکوک مریض کی اطلاع دی گئ تھی کیا محکمہ ہیلتھ کا عملہ اُسے قرنطینہ مرکز لے گیا ہے ؟.

اب ڈاکٹر صاحب کی بیگم کو ساری بات سمجھ آگئ تھی ۔ گویا کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی قید با مشقت کو سادہ قید میں تبدیل کر لیا تھا۔
تنویر بیتاب