شوارما ایک مشہور عربی ڈش ہے جس میں چکن، مٹن، لیمب، ٹرکی، بیف وغیرہ کو ایک خاص انداز سے کاٹ کر لوہے کی گرل کے اوپر گول ڈرم کی شکل میں چڑھا کر گرل کیا جاتا ہے یا سٹیل کے توے کے اوپر پکایا جاتا ہے مگر یہ ڈش عربوں نے خُود دریافت نہیں کی تھی۔
شوارما کی تاریخ

شوارما سب سے پہلے ترکی میں 18ویں اور 19ویں صدی میں پکایا جانے لگا اور وہاں اسے ڈونر کباب کا نام دیا گیا، ڈونر کباب یعنی گھومنے والا کباب اور یہ گھومنے والا کباب بکرے اور دُمبے کےگوشت سے پکایا جاتا تھا پھر ترکی سے یہ ڈش ترکی کے پڑوسی مُلک یونان میں پہنچی اور وہاں بھی بیحد پسند کی گئی۔
یونانیوں نے ڈونر کباب کو گائروز کا نام دیا جسکا مطلب بھی ٹرن یعنی گھومنا ہے اور یونان سے گائروز خطہ عرب پر پہنچی تو اسے عربوں نے بھی بہت پسند کیا اور اسے شوارما کا لقب دیا، شوارما عربی لفظ ہے جسکا مطلب بھی گھومنا ہے۔
شروع میں شوارما صرف دُمبے اور بکرے کے گوشت سے پکایا جاتا تھا مگر 20 ویں صدی کی ابتدا پر جب یہ ڈش مہاجروں کے ذریعے میکسیکو پہنچی اور اُنہوں نے اس پر نئے تجربات کیے اور اس میں چکن، بیف اور دیگر جانوروں کا گوشت بھی استعمال کرنا شروع کر دیا۔

شوارما کی گرل پر آگ گرل کے نیچے نہیں بلکہ ورٹیکل دہکائی جاتی ہے اور آج کل عام طور پر اس کے لیے گیس کے ہیٹر استعمال ہوتے ہیں لیکن شروع میں کوئلے کی گرل کو ورٹیکل رکھ کر اُس میں اس انداز سے ہوا پھونکی جاتی تھی جس سے گرل پر لگا گوشت پکتا تھا۔
ڈونر کباب کو گرل پر پکا کر ایک بڑی چُھری سے باریک لئیر میں کاٹا جاتا ہے اور اس کو عام طور پر پیٹا بریڈ، ٹورٹیلا بریڈ، یا آلو کی چپس کے ساتھ بطور فاسٹ فاڈ کھایا جاتا ہے۔
شوارما کے اوپر ڈالنے کے لیے ایک خاص قسم کی چٹنی زیتون کے تیل اور تلوں کیساتھ بنائی جاتی ہے اور اسے تاہنی ساس کہتے ہیں، یہ چٹنی عرب، تُرک، افریقہ، چائنہ اور بہت سے دیگر ممالک میں مختلف کھانوں میں استعمال ہوتی ہے اور شروع شروع میں اسے آئل کے متبادل کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
پاکستان میں شوارما کیسے آیا
پاکستان میں شوارما 21 ویں صدی کے آغاز میں داخل ہُوا جب غیر ملکی پاکستانیوں نے عرب اور یورپ وغیرہ میں اس مزیدار کھانے کو کھا کر اسے پاکستان میں متعارف کروایا۔